مشی گن کی گورنر کا اغوا اور بغاوت!!!

0
114

سلیم صدیقی، نیویارک

آجکل امریکہ کی سیاست بھی پاکستان کے نقش قدم پر گامزن ہے جس کا اظہار گاہے بگاہے میں اپنے کالموں اور نجی ملاقاتوں میں بھی کرتا آیا ہوں، صدر ٹرمپ کے بیانات انکے اقدامات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ یا تحریک انصاف برسر پیکار ہیں اور یہ اکیسویں صدی نہیں بلکہ ستر اور اسی کی دہائی ہے ۔ کورونا اور اسکے دوران نسلی امتیاز کی بلیک لائیوز میٹر کی تحریک نے امریکی معاشرے میں مزید دراڑیں ڈال دی ہیں ۔ صدر ٹرمپ کی کورونا کی وجہ سے ہسپتال جانا اور وہاں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور پھر وہائٹ ہاو¿س واپسی پر بھی جو انہوں نے کیا اور مسلسل کررہے ہیں لگتا ہے ان میں کسی بدعنوان پاکستانی فیوڈل سیاستدان کی روح گھس گئی ہے ۔ گذشتہ ہفتے مشی گن کی گورنر Gretchen Whitmer کو انکے گھر سے اغوا کرکے سرسری عوامی عدالت سے پھانسی دیکر اور مشی گن پر قبضے کا منصوبہ ایف بی آئی نے ناکام بناکر سفید فام انتہا پسندوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ کورونا کی ابتداءسے ہی آپریشن گرڈ لاک سٹے ہوم کی سفید فام نسل پرستوں نے گورنر وھٹمر کے لاک ڈاو¿ن احکامات کی مسلح خلاف ورزی شروع کردی۔ ان مسلح دستوں نے کیپیٹل کی ہائی ویز کو سات گھنٹے تک بند کئے رکھا اور Live free or Dieکےبینر آویزاں کردئے اس پر صدر ٹرمپ نے ٹویٹر کے ذریعے انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ مشی گن کو آزادی دلاو¿۔ گورنر گریچن وھیٹمر کا نام ڈیمو کریٹ حلقوں میں نائب صدارت کے لئے بھی شارٹ لیا گیا تاہم سیاہ فام تحریک کو دیکھتے ہوئے قرعہ فال کمالا ہیریس کے نام نکلا۔ گورنر مشی گن نے اپریل میں جب سٹے ہوم کی پالیسی نافذ کرتے ہوئے آپریشن گرڈ لاک کا اعلان کیا تو مشی گن سٹیٹ اس وقت کورونا کیسوں میں ٹاپ پر تیسرے نمبر پر تھی اور اب آخر سے تیسرے نمبر پر ہے لیکن ایمرجنسی کا نفاذ ابھی بھی جاری ہے۔ مشی گن کی اسمبلی میں ری ری پبلکنز کی اکثریت ہے جبکہ گورنر ڈیموکریٹ خاتون ہے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قانون سازی کے وقت مسلح انتہا پسند رائفلز لہراتے ہوئے پہنچ گئے مگر پولیس کو جرا±ت نہیں ہوئی کہ ان پر ہاتھ ڈال سکے امریکہ میں اسلحہ پر پابندی کا قانون بے حد لبرل ہے کئی ریاستوں میں طنز رکھنے کی آزادی ہے ۔ نائن الیون کے تھوڑے عرصہ کے بعد مشی گن کی ریاست میں کسی مقام پر مسلح انتہا پسندوں کو ایک جنگل سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے دکھایا گیا اور جنگی اسلحے کی بہت بڑی تعداد بھی برآمد کی گئی لیکن بعد میں اس خبر کو دبا دیا گیا حتی کہ گوگل پر بھی غائب کردی گئی۔ اب جبکہ صدارتی الیکشن میں بیس دن باقی رہ گئے ہیں کئی ریاستوں میں ان نسل پرستوں کی قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ٹکراو¿ کا سلسلہ جاری ہے ابھی سے الیکشن نتائج پر تحفظات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے صدارتی مباحثے کی روایت بھی ٹرمپ کے انکار کے بعد دم توڑ چکی ہے آج پیر کے روز امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ملی نے حکومتی پالیسی کے برعکس بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ وہ کرینگے صدر ٹرمپ جلد از جلد وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ادھر وال سٹریٹ جنرل نے رپورٹ کیا ہے کہ الیکشن کے ممکنہ نتائج سے نمٹنے کے لئے نیویارک پولیس کے خصوصی دستے تیار کرکے انہیں تربیت دی جارہی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ ہارنے کی صورت میں نتائج تسلیم کرنے سے انکار پہلے ہی کرچکے ہیں ۔
کورونا کے دوبارہ سر اٹھانے بے روزگاری میں اضافے اور شدید مہنگائی نے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے پوسٹل بیلٹ پر بھی تشویش پائی جاتی ہے دیکھتے ہیں امریکی قوم اور لیڈر اپنی شاندار جمہوری روایات پر کاربند رہ کر بحران سے نکلنے کی ازسرنو منصوبہ بندی کرینگے اور بدستور نمبر ون پوزیشن کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں نومبر 3 کا شدت سے انتظار پوری دنیا کو ہے ہم بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کو بے چین ہیں آپ سب بھی اپنا ووٹ استعمال کیجئے یہی ہم سب کا اہم فریضہ ہے منگل 3نومبر سب ووٹرز گھر سے نکلیں یا پوسٹل بیلٹ کا آپشن نہ بھولیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here