سلیم صدیقی، نیویارک
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہر سال ستمبر کے آخری ہفتے میں عالمی شخصیات کی آمد اور خطاب سے شروع ہوتا ہے،عالمی رہنماو¿ں کی آمد سے قبل رکن ممالک کے وفود کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن کے لئے ہوٹلز، اعلیٰ جدید ترین لیموزین گاڑیوں کے قافلے اور دیگر لوازمات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،ان دنوں نیویارک اور گردونواح کے ہوٹلوں میں مکمل طور پر بک ہوجاتے ہیں، ٹیکسی والوں کا کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے نائٹ کلبوں اور شراب خانوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ پولیس اور سیکرٹ سروس کے دستے تمام اہم مقامات پر پوزیشنیں سنبھال لیتے ہیں ،صدر امریکہ کی نیویارک آمد اور اقوام متحدہ سے خطاب کے وقت نیویارک ہائی الرٹ پر رہتا ہے، ٹریفک جام کی وجہ سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔مگر اس سال گذشتہ 75 سالوں کے برعکس پہلی مرتبہ کوئی بیرونی وفد نیویارک نہیں پہنچا تمام کاروائی ریموٹ ہورہی ہے، نیویارک میں تعینات یو این میں متعلقہ ممالک کے نمائندے اس اجلاس میں نمائندگی کے لئے حصہ لیتے ہیں۔نیویارک کی سٹی انتظامیہ کو اس سال ریونیو کی مد میں ایک ارب ڈالرز سے زائد کی محرومی کا سامنا ہے، ٹیکسیاں سڑکوں سے غائب ہیں ،ہوٹل بھوت بنگلے بنے ہوئے ہیں، ائیرپورٹس طیاروں اور مسافروں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ایک وقت تھا عرب حکمرانوں کے طیارے عالی شان لیموزین گاڑیوں سے لدے ان ائیر پورٹس پر لینڈ کرتے تھے اور کرنل قذافی تو اپنی خیمہ بستی جو عرب ثقافت کا آئینہ دار ہوتی تھی بسا لیتے تھے مگر نہ تو قذافی رہے نہ یاسر عرفات نہ ہی شاویز اور ان جیسی قدآور شخصیات پاکستان کے عمران خان کےاقوام متحدہ سے خطاب ذوالفقار علی بھٹو کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے کشمیر پر پاکستان کے دبنگ موقف کو دنیا بھر میں اجاگر کیا اور اسکی قیمت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں ادا کی اب عمران خان کے فلسطین پر دلیرانہ موقف نے انہیں بھٹو جیسا عالمی لیڈر بنا دیا ہے اگر کورونا نہ ہوتا تو عالمی فورم پر عمران خان کی جو پذیرائی ہوتی وہ دنیا دیکھتی کہ پاکستان اب ایک بار پھر اسلامی اور تیسری دنیا کا حقیقی لیڈر بن کر قیادت کا مستحق ہے،پاکستان کو ایک بار پھر اندرونی و بیرونی سازشوں سے غیر مستحکم کرنے کی کوششیں بھی اسی وجہ سے تیز تر کردی گئی ہیں،جنرل اسمبلی کی سالانہ بیٹھک کے موقع پر نیویارک میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے بھرپور مظاہرے بھی ہوا کرتے تھے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے لوگ اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف بلکہ دیگر بین الاقوامی امور پر بھی عالمی رہنماو¿ں کی توجہ کے لئے احتجاج کے لئے یہی موقع اور اسی مقام کو منتخب کیا جاتا تھا ۔ایرانی انقلاب کے بعد برسوں تک شاہ ایران کے حامی اور مخالفین یہیں صف آرا ہوتے تھے جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کے خلاف ہرسال بڑے بڑے مظاہرے ہوا کرتے تھے، پاکستانی قونصلیٹ بھی ان دنوں متحرک رہتا تھا روزویلٹ اور دیگر ہوٹلز بھی ان دنوں سیاسی مرکز بن جاتے تھے۔ ان وفود میں شامل سیاسی و غیر سیاسی شخصیات ان دنوں دعوتیں کھانے اور تحائف سمیٹنے میں بھی بہت مصروف ہوتی تھیں، مقامی اخبارات کے بھی وارے نیارے ہو جاتے تھے ،مقامی تنظیمیں بڑے اہتمام سے ان دنوں صدقے واری جاتی تھیں،مقبوضہ کشمیر سے آئے وفود اور آزاد کشمیر کی قیادت کے درمیان بھی رابطوںاور قربت میں بھی تیزی دیکھنے میں آتی تھی مگر حالات اور کورونا نے تمام سرگرمیوں پر اوس پھیر دی ہے،
ان حالات میں کشمیر کاز کے لئے دیرینہ مقامی لیڈروں نے بڑی ہمت استقامت اور بڑے پن کا ثبوت دیا اور نریندرا مودی کی تقریر کے دوران اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے کشمیری رہنماو¿ں کے ہمراہ بڑا مظاہرہ کیا مسلم لیگی کہیں نظر نہیں آئے،ہماری دعا ہے کہ کورونا کی وباءسے دنیا کو نجات مل جائے کیونکہ ہر شعبہ زندگی اس سے متاثر ہوا ہے معیشت تباہ ہوگئی ہے تعلیم کا شعبہ بھی آئندہ کئی برسوں تک کورونا کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا،اس دوران امریکی صدارتی انتخابات سر پر آگئے ہیں صدر ٹرمپ کا بیان کہ وہ ہارنے کی صورت میں پرامن انتقال اقتدار کی ضمانت نہیں دے سکتے ایک نئے بحران کی نوید سنا رہا ہے جو امریکی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا دیکھتے ہیں ایک ماہ بعد کورونا اور ٹرمپ کہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔
٭٭٭