مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
شخصیت پرستی دل میں چھپے جذبات کے اظہار کا نام ہے، ظاہر ہے یا تو حُسن میں کمال رکھتا ہوگا یا کمال میں کمال رکھتا ہوگا، یا مہربانیوں میں کمال رکھتا ہوگا یا قرابت داری رشتہ داری میں کمال رکھتا ہوگا پہلے پہل عقیدت پیدا ہوتی ہے پھر وہ عقیدت مندی شخصیت پرستی میں بدل جاتی ہے اور شخصیت پرستی ہی اصل میں بُت پرستی کی جڑ ہے۔ فرق یہ ہے کہ بُت نہیں اُس کے جذبات نہیں اس لئے اس سے بچ بچا جاتا ہے مگر شخصیت پرستی کا بُت سمجھتا ،ہے بولتا بھی ہے ،جذبات بھی ہیں۔ اس سے جب آپ والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں، اسے فرعون بننے میں دیر نہیں لگتی جس کا نظارہ ہم نے عراق میں ہر شہر میں ہر جگہ دیکھا، ہر چوک میں بڑے بڑے بُت کھڑے کر دیئے گئے تھے اور پھر اگر کوئی حسین ہے تو کوئی کمال نہیں ہوگا اگر کمال ہے تو حسین نہیں ہوگا اگر حسین و کمال والا ہے تو مالدار نہیں ہوگا کسی پر مہربانی نہیں کر سکتا اگر یہ تینوں چیزیں موجود ہوں تو تمہارا رشتہ دار میں ہوگا غرضیکہ نامکمل ہوگا۔ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ ہم عقیدت کو اُٹھا کر شخصیت پرستی پر لے جاتے ہیں اور پھر ہمارا تقاضا یہ ہے کہ ہر بندہ میرے لیڈر، میرے پیر، میرے مفتی کی اندھا دھند تقلید کرے اگر کوئی رضا مند نہ ہو، مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب کا تقاضا تھا ایک مرتبہ میرے پیر صاحب سے مل کر دیکھیں پھر کیسے آپ کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں۔ بہر حال ملاقات کی ایک صاحب اپنی بیوی کے ساتھ دوپٹے ملا کر پگڑی نما چیز پہنی تھی میرا پہلا سوال یہ تھا کہ آپ کس دین کی تبلیغ کرتے ہیں، کہا دین اسلام کی، دین ہمیں کس نے سمجھایا ہے کہا سرکار دو عالمﷺ نے تو میں نے عرض کی پوری سنت میں بیوی کے ڈدوپٹوں کی سات رنگی پگڑی پہنی ہے ،گرم ہو گئے مولوی تم نہیں جانتے اس وقت کون کون سا فرشتہ میرے حکم کے تابع ہے۔ میں تمہارا بیڑا غرق کر سکتا ہوں، بہر حال لمبی کہانی ہے وہ ایک بُت تھا اور لوگ بُت بن کر بیٹھے ہوئے تھے ایک مشہور زمانہ لیڈر کی پچھلی زندگی کی ہلکی سی جھلک دکھائی تو عقیدت مند جواب بنا چکا تھا کہنے لگا لیڈری کا کردار سے کیا تعلق ہے جو مثال اس نے لکھ نہیں سکتا۔ ایک صاحب بڑے سخی تھے سخاوت کے قصے مشہور ہیں ایک دن میں بھی چلا گیا، اس کی شکل و صورت، وجاہت دیکھ کر لاحول پڑھتا ہوا باہر نکل آیا جی ایک میرا قریبی عزیز تھا، بڑا عالم فاضل دنیاوی علوم سے بہرہ ور، مگر وہ ایک اندھی کوٹھری میں دیا جلا کر مو¿کل قابو کر رہا تھا،ایک عالم سے ملاقات ہوئی جس کے پاس بات کرنے کا بھی وقت نہیں تھا۔ پتہ چلا کہ پُرانے زمانے کی کیسٹ سن سن کر رٹہ لگا لیا باقی اپنی شعبدہ بازی سے بت بن گیا تھا، کچھ لوگ کاریگر بھی دیکھے جو ناجائز عقیدت کا اظہار کر کے دھوکہ دیکر مال بٹورنے میں مصروف تھے۔ سو میرے بھائیو عزیزو، ان تمام معیارات پر صرف ایک ہی ذات پورا اُترتی ہے وہ ہے سرکار دو عالمﷺ کی ذات گرامی۔ نہ وہ خود بت بنے نہ ہی کسی عقیدت مند کو بت بننے دیا، ہاں صرف ایک ہی ذات ہے جس کی تقلید اور اطاعت کا حکمد یا گیا ہے جس نے عقیدت مندوں کے بنائے ہوئے چبوترے کو اس لئے گرا دیا تھا کہ میں تمہارے اندر مل جل کر بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہوں چھوڑ دو سب بتوں کو اور سرکار دو عالمﷺ کے گرویدہ ہو جاﺅ۔
٭٭٭