مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
جب اللہ کے رسولﷺ کے فرمودات پڑھتے ہیں اور پھر اپنے اعمال دیکھتے ہیں اپنی گفتگو سنتے ہیں، تو عجیب مخمصے میں پھنس جاتے ہیں، دین خیر خواہی ہے سکول ٹائم سے فرمان رسول کو سن رہے ہیں مگر کبھی قریب ہو کر سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ مکھی پہ مکھی مارتے چلے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگ دین سے دُور ہوتے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس جنگل میں دین اور مذہب کو ہم نے ایک سمجھ لیا ہے۔ اس لئے ہر بندہ مناظرے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھا ہے۔ ہر بندہ اپنے دلائل کے زور پر کچھ بھی منوا سکتا ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ہمیں سرکار دو عالمﷺ سے راہنمائی لینی چاہیے تھی حضرت تمیم داری کی روایت ہے کہ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا بے شک دین خیر خواہی کا نام ہے۔ بے شک دین خیر خواہی کا نام ہے۔ بے شک دین خیر خواہی کا نام ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ کس کی خیر خواہی فرمایا، اللہ تعالیٰ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسولﷺ کی مسلمانوں کے آئمہ کی اور عام مسلمانوں کی اللہ کے نبی نے جو کہا سچ کہا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی حدیث ہے جو ہر مسلمان اور ہر مسلمان بچے کو یاد ہے۔ لیکن جو تشریح سرکارﷺ دو عالم نے پانچ چیزوں کا ذکر فرمایا۔ اللہ، کتاب، رسول، امام، عام مسلمان اللہ تعالیٰ کیلئے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کا صحیح عقیدہ رکھا جائے اور اسے ان صفات سے موصوف کیا جائے جو اس کی شان الوہیت کے شایان شان ہو اور تمام نقائص و عیوب سے پاک یقین کیا جائے خلوص کےساتھ اس کی عبادت کی جائے اور کتاب کیلئے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ جو احکام قرآن مجید میں درج ہیں ان پر دل و جان سے عمل کیا جائے۔ خشوع و خضوع کےساتھ تلاوت اور قرآن مجید کا احترام کیا جائے۔ قرآن کریم کے صحیح مفہوم کو سمجھا جائے۔ من مانی تاویلوں سے گریز کیا جائے اور رسول کیلئے نصیحت کا یہ معنی ہے کہ اس کی نبوت کی تصدیق کی جائے۔ اس کی سنت کو زندہ کیا جائے اور اس کی مقدور بھر نشر و اشاعت کی جائے اور اس کی سیرت پر عمل کیا جائے، اس کے متعلقین سے پیار کیا جائے اہل بیت و صحابہ اور آئمہ کرام کیلئے نصیحت کا معنی یہ ہے کہ ہر حق بات میں ان کی اطاعت کی جائے اور مدد کی جائے۔ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے اجراءمیں ان کا دست و بازو بنا جائے۔ غفلت میں متنبہ کیا جائے اور عام مسلمانوں کیلئے نصیحت کا یہ معنی ہے کہ جہاں جن امور میں مسلمانوں کا فائدہ ہے مصلحت ہے ان کی مدد کی جائے۔ مسلمانوں میں جو نادار، مفلس ہیں ان کی مالی امداد کی جائے۔ ان کے عیوب و نقائص کی پردہ پوشی کی جائے، ہر تکلیف سے بچانے کی پوری کوشش کی جائے، جو شریعت مطہرہ سے غافل ہوں، ان کی غفلت دُور کی جائے جو جاہل ہیں ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ یہ ہے الدین نصیحت، دین خیر خواہی کا نام ہے۔
٭٭٭