”حزب اختلاف کو دیوار سے لگا دیاگیا ہے“

0
303
پیر مکرم الحق

 

پیر مکرم الحق،انڈیانا

کل قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ایک اضافی اثاثوں کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس واقعہ سے ایک دن پہلے تحریک انصاف کے رہنما شیخ رشید نے کراچی میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ اب تھوڑا چلنے والا ہے۔اس سے پہلے بھی شیخ رشید کہہ چکے ہیں کہ30ستمبر سے پہلے حزب اختلاف کے بڑے رہنماﺅں جن کےخلاف مقدمات میں اپنے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائیگا۔جیسا کہ قارئین آگاہ ہیں شیخ صاحب موصوف انہیں آہنی ہاتھوں کہ ترجمان کے طور پر مشہور ہے۔شیخ رشید شاہد ہونے والی پیش گوئیاں کرکے اپنا قد بڑھا رہے ہیں لیکن سیاستدان ہونے کے ناطے انہیں ہے سمجھنا انہیں احساس ہونا چاہئے کہ بے گفتگو انکے سیاسی مستقبل پر کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑیگی اور وہ جن کی ترجمانی کر رہے ہیں انکے امیج کو بھی مسلم کریگی لیکن شیخ رشید توجہ حاصل کرنے کیلئے اس قسم کی گفتگو کرتے رہے ہیں۔شہبازشریف کی گرفتاری والے دن فوج کے سربراہ کے خلاف نعروں سے لاہور گونج گیا ہے نعرہ حکومت کے بجائے اب فوج کےخلاف دگنا شروع ہوگئے ہیں۔پنجاب کے دارالحکومت میں فوج کےخلاف نعرہ بازی ایک غیر معمولی بات ہے جو فوج کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہوسکتی ہے بدعنوانوں کےخلاف اقدامات ہونے چاہئیں لیکن اول تو یہ ہے کہ سب لوگ جوبدعنوانی میں ملوث ہیں انکے ساتھ ایک ہی طرز عمل ہونا چاہئے اس میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے سیاسی وابستگی کے بالا کسی کے خلاف بھی نہیں کسی کہ حق میں نہیں کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے۔کچھ ماہ پہلے ایف آئی اے(FIA)نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ کے اختتام پر پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کے خلاف آٹا اور چینی سیکنڈل میں ملوث ہونے کی شنید سنائی تھی وہ رپورٹ تو حکومت کی فائیلوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے انکے علاوہ خسروبختیار بھی اب تک حکومتی وزارت کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔اس طرح لفٹیننٹ جنرل باجوہ کےخلاف صحافی احمد نورانی کی خبر پر بھی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی الٹا سکیورٹیز اور ایکسچینج اتھارٹی پر نزلہ گرا جنہوں نے بنائی جانی والی کمپنیوں کی تفصیل فراہم کی تھی انکے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد گوندل کو اغواءکر لیا گیا اور پانچ دن انکی چھترول کرکے چھوڑ دیا گیا ہے ساری چیزیں عوام کے علم میں ہیں۔قانون کا دھرا معیار عوام کے اعتماد کو متزلزل کر رہا ہے اور اگر حکومت بدعنوانی کا قلعہ قمعہ کرنے میں مخلص بھی ہے تو وہ آج تحریک انصاف کے طرز عمل سے ظاہر نہیں ہوتا محسوس ہے ہوتا ہے کہ آج بھی بدعنوانی باوجود حکوتی دعوﺅں کے بجائے کم ہونے کے بڑھتی جارہی ہے۔بدامنی کا یہ حال ہے کہ لاہور موٹروے کا مرکزی ملزم ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا باوجود اسکے کہ یہ واقعہ ایک بین القوامی نوعیت کا بن گیا ہے جس کی وجہ مظلومہ خاتون کی فرانسیسی شہریت ہے جو جرم چھوٹے گاﺅں میں غریب خاندانوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ تو کبھی سامنے بھی نہیں آتا پنجاب پولیس کی حالت پہلے سے بدتر ہے باوجود تبدیلی اور بہتری کے دعوے کے تحریک انصاف کی حکومت عوامی فلاح وبہبود کے کسی منصوبہ پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔باقی اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی باتیں کرکے عوام میں بے چینی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اشیاءخوردونوش کی قیمتیں غریب آدمی کی قوت خرید سے نکلتی جارہی ہیں بجلی کی قلت اور مہنگے دام، گیس مہنگی،تیل مہنگا، بیروزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔انہیں بدعنوانی صرف اور صرف سیاسی مخالفوں میں نظر آرہی ہے اپنے گھر میں اپنی ہمشیرہ حلیمہ خانم نے کروڑوں ڈالروں کی منی لارنڈنگ کرکے غیر قانونی طور پر پیسہ عرب ریاستوں تک پہنچا کر جائیدادیں لے لیں جس پر سپریم کورٹ نے ایف بی آر کی سفارش پر کروڑوں روپے واجب الادا ٹیکس اور ہرجانہ عائد کیا جو ابھی تک ادا نہیں کیا گیا ہے اگر ادا ہو بھی گیا تو اربوں رقم کی رقم غیر قانونی طور پر جو ملک سے باہر لے جانے کا جرم تو ثابت ہوچکا کیا ہوا اس جرم کا نہ کوئی ایف آئی آر نہ کوئی مقدمہ!؟کریں نہ انصاف کی شروعات اپنے گھر سے ثابت کریں نہ ریاست مدینہ کی حکومت دوغلہ پن منافقت اور بڑکوں سے حکومت تو کیا کوئی مسئلہ بھی نہیں چل سکتا آج آصف زرداری اور فریال تالپور بھی فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔فرد جرم تو لگا دی اب مقدمہ دس سال چلتا رہے گا بعد میں چل چل کر مقدمہ بھی تھک جائیگا۔کوئی ثبوت لائیں۔پبلک کریں عوام کے سامنے مضبوط ثبوت لائیں ہے جو عدالتوں میں جو فرد جرم آتے ہیں پھر اندرون خانہ ثبوت بھی لائے جاتے ہیں۔جب ان مقدمات کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکتا تو پھر عوام کا منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکتا تو پھر عوام کا اعتماد اس تمام کارروائی سے اٹھ جاتا ہے اور پھر عوام بھی ہے سوچتی ہے کہ یہ سیاسی انتقامی کارروائی اور پھر وہ سیاسی رہنما عوام کی ہمدردی حاصل کر کے ووٹ لیکر دوبارہ اقتدار میں آجاتے ہیں اور اقتدار میں آکر دوبارہ سے اپنے آنے والے مقدمات کا خرچہ اکٹھے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ناکارہ نظام ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتا چلا جائیگا۔اگر عمران خان اپنے منصب اور منشور سے مخلص ہوتے تو آتے ہی عدالتوں کو مکمل آزاد کرتے۔احتساب کا ایسا نظام لاتے جو سب کیلئے برابر ہوتا ججز، جرنیل، بیورو کریٹ بزنس مین کاروباری لوگ جب تک برف چوٹی سے نہیں پگھلے گی اثرات نیچے تک نہیں پہنچنے پائیں گے۔عورت فاﺅنڈیشن نے بجا طور مطالبہ کیا ہے کہ آرمی چیف سمیت تمام جنرلوں، چیف جسٹس پاکستان سمیت تمام ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے اثاثہ جات عوام کے سامنے ظاہر کئے جائیں۔ایک ایماندار اور قابل جج قاضی فیض عیٰسی کو رسوا کرنے کی کوشش نے تو بیک فائر کیا ہے اب عوام قانون کے نفاذ کا دوہرا معیار برداشت نہیں کریگا۔اس سے پہلے کہ عوام سڑکوں پر نکل آئے اس نظام کو بدلو ورنہ سڑکوں پر خونریزی ہوگی جس کو بڑی سے بڑی فوج بھی قابو نہیں کرپائے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here