واشنگٹن سے اسلام آباد تک!!!

0
175
کوثر جاوید
کوثر جاوید

 

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

امریکہ میں صدارتی انتخابات 3 نومبر کو ہونگے جس میں چند ہفتے رہ گئے ہیں، انتخابی گہما گہمی اور روایتی انداز میں ووٹرز کا جوش خروش دیکھنے کو مل رہا ہے کرونا وائرس کی وجہ سے بہت زیادہ پابندیوں کے باوجود دونوں پارٹیاں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، صدارتی الیکشن کےساتھ کانگریس کی 435 نشستوں پر اور سینیٹ کی 33 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی، امریکی الیکشن کے دن نہ کوئی چھٹی ہوتی ہے اور نہ کوئی رکاوٹ، روز مرہ زندگی اور سرکاری ادارے معمول کے مطابق کام کرتے ہیں ، ای میل کے ذریعے ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں اور الیکشن کے دن سے پہلے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں، تمام کی تمام گفتگو، جلسے اور میٹنگز عوامی فلاح اور ماضی میں مستقبل کے منصوبوں پر ہوتی ہیں،الیکشن کی وجہ سے کسی بھی شہر یا پولنگ سٹیشن پر کوئی جھگڑا یا ٹکراﺅ نہیں ہوتا۔
جو ہار گیا وہ خوش دلی سے شکست تسلیم کر کے جیتنے والے کےساتھ مل کر عوام کی فلاح و بہبود اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہو جاتا ہے ،امریکی آئین کے مطابق کسی بھی نسل، مذہب اور کلچر کے، تارکین وطن جو امریکی شہری ہیں وہ الیکشن میں امریکی صدر کے علاوہ کسی بھی نشست کیلئے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں، موجودہ الیکشن پاکستانی امریکن کمیونٹی بھی امریکی انتخابات میں تھوڑی سی پُرجوش ہے، اکثریتی پاکستانی پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں جو کمیونٹی کے وقت کےساتھ وسائل بھی ضائع کر رہے ہیں اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ خوبصورت سیاسی سسٹم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ امریکی انتخابات کےساتھ ساتھ اگر ہم پاکستان کے سسٹم پر نظر ڈالیں تو جو بھی امیدار ہار جائے وہ کبھی بھی شکست کو تسلیم نہیں کرتا۔ 2018ءکے انتخابات کو تمام اپوزیشن پارٹیاں جعلی الیکشن قرار دے رہی ہیں ،سب ممبر اسمبلی کی پوری تنخواہ اور دیگر مراعات سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں، مولانا فضل الرحمن گزشتہ تیس سال سے کسی نہ کسی طرح اسمبلی کے ممبر بنتے جا رہے تھے۔ 2018ءکے انتخابات میں بُری طرح ہار گئے لیکن ان کا بیٹا اسمبلی کا ممبر ہے مولانا انتخابات کو جعلی قرار دے رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے اراکین بھی شور شرابہ کر کے گھروں کو چلے جاتے ہیں، پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل شروع ہوا ہے، نیب کا ادارہ خود ان دونوں پارٹیوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے آگے بڑھایا اور متفقہ رائے سے چیئرمین نیب تعینات کیا سپریم کورٹ ججز بھی اتفاق رائے سے لگائے گئے جو کیسز چل رہے ہیں ،وہ تمام کے تمام انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کےخلاف بنائے اب ان کی کرپشن کے احتساب کا وقت آگیا ہے اور ملک کا سربراہ اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ ان چوروں اور ڈاکوﺅں سے لوٹا ہوا مال واپس لینا ہے، یہی وجہ ہے کہ چوروں اور ڈاکوﺅں کی چیخیں نکل رہی ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی کرپشن میں ملوث نکلے۔ شہباز شریف گرفتار ہو چکے ہیں اور زرداری ڈاکو آئند چند دنوں میں گرفتار ہو جائیں گے، عدالتوں میں کوئی بھی دستاویز ایسی پیش نہیں کر سکے جن سے ثبوت ملے کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں ،تمام تر کوششوں جن میں فوجیوں کے بوٹ چاٹنا بھی شامل ہے کے باوجود یہ کرپٹ ٹولہ کچھ نہ کر سکا۔ عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کیلئے کوششیں کیں جو ناکام ہوئیں اور عمران خان ہر موقع پر ہر محاذ پر ان کو سیاسی شکست دینے میں کامیاب ہو گیا، ن لیگ ٹوٹ پھوٹ کار شکار ہے، پیپلزپارٹی پہلے ہی اپنی ساکھ کھو چکی ہے، آنے والے دنوں میں یہ کرپٹ ٹولہ جیل جاتا نظر آرہا ہے۔ یہ حکومت پاکستان کو ناجائز قرار دے رہے ہیں، انتخابات کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں، سلیکٹڈ کا نام دے رہے ہیں ان کی اپنی تاریخ دیکھیں اور زرداری فوج کی پیداوار ہیں اگر ان لوگوں نے گزشتہ چالیس سالوں میں عوامی بھلائی کیلئے کچھ کام کئے ہوتے تو آج کی حالت یہ نہ ہوتی جس طرح امریکہ میں انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت کی عزت افزائی ہوتی ہے اگر پاکستان میں بیس فیصد بھی امریکی سیاسی روایات قائم ہو جائیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں لیکن یہ چور ڈاکو اپنی کرپشن کی دولت تو بیرون ممالک میں رکھتے ہیں، خاندان بھی دوسرے ممالک میں رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں صرف اور صرف حکومت کرنے کے چکر میں آکر رہتے ہیں، اب ان کو حساب دینا ہوگا آنے والے دنوں میں پاکستان میں کافی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں اس سلسلے میں جو واشنگٹن سے اسلام آباد تک دیکھی جائیں گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here