سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن ! مجھے پچھلے ہفتہ کے کالم جس کا عنوان “غدار کس کو کہتے ہیں” نواز شریف کی ایم سیکس کی گود میں بیٹھ کر کی گئی ہندوستانی زبان میں کی گئی تقریر پر لکھا تھا میرے نہ تو ہزاروں، سیکڑوں پڑھنے والے ہیں نہ چند سو -میرا کالم ہر جمعرات کو نیو یارک سے چھپنے والے جیئد اخبار “نیوز پاکستان” میں چھپتا ہے جس کو میں فیس بک، میسنجر اور واٹس آپ پر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی حلقہ احباب کو بھیج دیتا ہوں کچھ سے پذیرائی ملتی ہے کچھ سے تنقید اور کچھ سے گالیاں اور ہم ان کا حق سمجھ کر یہ کہ کر کہ!
کچھ تو یاروں سے ملا سنگِ ملامت ہی سہی
کس نے اس دور میں یوں دادِ وفا پائی ہے
اپنا دل خوش کر لیتے ہیں
قارئین وطن ! سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پبلشر “مجیب لودھی “ صاحب کی بہادری کا کمال ہے کہ ہر طرف سے نون لیگی پریشر کے باوجود انہوں نے نہ کبھی ایک لفظ کاٹا ہو یا مجھے کہا ہو کہ سردار صاحب میرا کمرشل ادارہ ہے ہاتھ ہلکا رکھا کریں اللہ ان کی جراتوں کو اور وسیع کرے اور ان کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے جبکہ وطن عزیز میں صحافتی حلقوں میں میرے احباب میں نہ تو “مجیبی “ جرات ہے اور نہ ہی حق سچ کا ساتھ دینے کی طاقت میرا کالم “ڈس بن” میں یہ کہ کر پھینک دیتے ہیں کہ حضور ہمارا ادارہ کمرشل ہے اور ہم نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے خیر ہر م±دعی کہ واسطے دارو رسن کہاں – میرے ایک دو دوست نواز شریف کا نام پڑھ کر اتنا تلملا اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو سارے عیب نواز شریف میں نظر آتے ہیں کبھی آپ نے عمران خان کی کرپشن کے بارے نہیں لکھا اور فوج کے بارے نہیں لکھا جو اس کو لے کر آئی ہے ، میرا ان دوستوں سے یہی استدلال رہا ہے کہ “ بچپن کی بھول چک، معاف ہوتی ہے ،میں نے نواز شریف کے ماضی کو یا شہباز کے ماضی کو نہیں چھیڑا جبکہ میں اس کو اور اس کے خاندان کو دال گیرہ چوک سے جانتا ہوں کہ ہم سب عمروں میں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اور اسی طرح عمران خان کو اور اس کے ننیال کو جنہوں نے جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور کی پرائم پراپرٹیوں پر قبضہ کیا میں اِن لوگوں کے بارے اس پیریڈ سے لکھتا ہوں جب ایک جیلانی کی گود سے چھلانگ لگا کر سیدھاصدرِ مملکت جرنل ضیاالحق کی گود میں جا بیٹھا اور دوسرا آسمان کرکٹ کا چمکتا دمکتا ستارا تھا اور پھر اس نے کینسر ہسپتال بنا کر فلائی کام کرنے شروع کردئیے ، ایک کے سر پر اقتدار کی ہ±مہ آ بیٹھی اور دوسرے نے محمود اعوان جیسے دوستو کے مچلتے ہوئے سیاسی شوق نے سیاست میں قدم رکھنے کے لئے اُکسایا اور اس نے اپنی فلائی سحر کے زعم میں سیاست کی ابتدا کی اور پھر اپنے کرکٹ کے زمانوں کے تعلقات اور سیلف اسٹڈی کے بل بوتے پر اپنا مقام بناتے ہوئے اس منصب جلیلہ جس کو وزیر اعظم کہتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر اسٹیبلشمنٹ کی نظروں کو بھانے لگا جس میں کوئی مزائقہ نہیں جبکہ دوسری طرف قلندر نواز شریف کی ایک دن کی بھی کوئی سیاسی سٹرگل نہیں سوائے اس کہ کہ وہ کچھ دن کے لئے ائیر مارشل اصغر خان کی جماعت میں لاہور کا فناس سیکرٹری تھا اور میرا دوست سلیمان کھوکھر پنجاب کا سکرٹری جرنل تھا، باقی اس کو جو ملا سرکاری ملازمین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ جس کو ضیا نے حکم دیا تھا کی سیاسی پرورش کرو بس پھر کیا تھا ہمارے دوست گوہر علی خان کے والد کرامت علی خان آف قصور جو اس وقت اس کے سیکرٹری انفارمیشن تھے اور ان کے ڈپٹی ڈائیریکٹر شعیب بن عزیز صاحب نے دن رات ایک کر دئیے، اس ک±ند ذہن کو سیاست دان بنانے میں اور باقی چوری اور کرپشن اس کو خاندانی ورثے میں ملی یہ ہے نواز کا سارا سیاسی کریڈٹ جس کے لئے دوست کہتے ہیں کہ آپ عمران کے بارے کچھ نہیں لکھتے آپ میرے قارئین ! بتائیں میں کیا لکھوں کہ جس نےکل “یو این او” میں دبنگ تقریر کر کے نہ صرف پاکستان کا بلکہ عالم اسلام کا سر بلند کیا ہے، میں اس کی کونسی چوری کے بارے میں لکھوں جو اپنی جائیدادوں کو کینسر اور نرمل یونیورسٹی کے نام کر چکا ہے، میں کیا اس کے خلاف لکھوں کہ تمھارے باپ نے کھربوں کی رشوت لی ہے جو کافی ہاو¿س میں صرف اپنے لیئے ہاف سیٹ چائے کا منگوا کر کسی دوسرے کو ایک پیالی بھی نہیں پوچھتا تھا ،امان اللہ خان صاحب ، شعیب صاحب بتائیں میں کیا لکھوں کہ تم نے اپنے ملازموں کے نام پر ٹی ٹیاں لگوائیں ہیں آج جس نے ہندوستان کو للکارا ہوا ہے مجھ غریب کو بتائیں کہ میں کیا لکھوں انشاللہ میں وہی لکھوں گا جو میرا ضمیر کہے گا مجھے نہ تو کوئی صلہ چاہیئے، نہ کوئی نوکری، نہ کوئی وزارت ،نہ مجھے نواز سے کچھ چاہئے اور نہ ہی عمران خان سے مجھے صرف میرا ملک پاکستان سلامت چاہئے، اپنے احباب کی سلامتی آپ دوستو کی خوشی۔
قارئینِ وطن ! رنگ بدلتا ہے آسماں کیسے کیسے کل پسرِ شیخ عبداللہ ، محترم فاروق عبداللہ کا مکمل انٹرویو بھارت کے مشہور دانشور اور اینکر “کرن تھاپر” کے ساتھ انٹر ویو سنا، کرن تھاپر نے ایسے ایسے چبتے ہوئے سوال کیے کہ مزا آگیا اور فاروق عبداللہ نے بھی بڑے اعلیٰ انداز میں جواب دیا تو واقعی وہ ایک اسٹیٹمین لگا انٹر ویو کا “punch line”ل±بِ لباب± یہ تھا”Kashmari s do. not feel Indian today they’d
have the “Chines Rule Them”یعنی آج کشمیری اپنے آپ کو انڈئین نہیں سمجھتے بلکہ وہ چاہیں گے کہ چینی ا±ن پر حکمرانی کرے ،یہ فاروق عبداللہ کا بہت بڑا بیانیہ ہے جس نے ہندوستان کی سیاست اور اس کی لبرل ازم کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں ،آج وہ کہتے ہیں کہ موجودہ ہندوستان نہ تو گاندھی کا ہے اور نہ ہی نہرو کا ہے یہ تو ایک فاشسٹ نریندر مودی کا ہے جس پر نہ تو ہندوستان میں آباد مسلمانوں ، عیسائیوں ، سکھوں اور نہ ہی دوسری چھوٹی اقلیتوں کاہے ۔فاروق نے جس دبنگ انداز میں انٹرویو دیا کہ “انسانیت،جمہوریت اور کشمیریت کا جنازہ ہندوستان کی فاشسٹ حکومت اپنے کندھوں پر ا±ٹھا کر دنیا کے قریہ قریہ پھر رہا ہے کہ دوسری طرف اس کی عسکری اور سیاسی طاقت کا بھڑکس نکال دیا ہے ،چائینہ نے اور اس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کا پولیٹیکل اور عسکری پیراڈائم بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج فاروق عبداللہ انسانیت کا علم بلند کر کے چیخ چیخ کر یہ دہائی دے رہے ہیں کہ کاش شیخ عبداللہ حضرت قائداعظم کی بات مان لیتے تو آج ہمارے ساتھ یہ حال نہ ہوتا جو آج ہندو ہمارے ساتھ کر رہا ہے، میرے وہ پاکستانی جو دن رات پاکستان بنانے والوں کی نفی کرتے رہتے ہیں، فاروق عبداللہ سے سیکھ لیں جو آج کشمیریوں سے معافی مانگ رہا ہے اپنے اور اپنے بزرگوں کے گناہ کی ، اللہ فاروق عبداللہ کو اور تمام کشمیری رہنماو¿ں کو مودی کی فاشسٹ حکومت سے نبرد آزما ہونے کی اسطاعت بخشے۔ آمین
٭٭٭