مارچ سے پہلے مارچ!!!

0
380
عامر بیگ

آنکھوں دیکھا
عامر بیگ

آپ نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے منہ سے بہت دفعہ سنا ہو گا کہ اگر ان پر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے ،یہ سچ ہے کہ آشیانہ اور صاف پانی میں نیب ان پر کچھ بھی ثابت کرنے ابھی تک ناکام ہے اور اب ٹی ٹی سکینڈل میں ان کو گھیر لیا گیا ہے ،ریفرینس دائر کر دیا گیا اور ان کی عبوری ضمانت خارج ہونے پر انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے ۔اس سے ملتا جلتا کیس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری صاحب پر بھی ہے جن پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور وہ اسکی صحت جرم سے انکاری ہیں جو کہ انکا حق ہے ۔وہ ابھی تک خرابی صحت کی وجہ سے ضمانت پر ہیں، اے پی سی میں انکے بقول پہلی گرفتاری انکی ہو گی لیکن شہباز شریف بازی لے گئے ،اب باقائدہ ان سب پر کیسز چلیں گے اور تب تک گرفتاری رہے گی یا صحت کی وجہ سے ضمانت مولانا فضل الرحمن کو بھی اِنکم سے زیادہ اثاثوں کی بنیاد پر نیب کی طرف سے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ ،سعد رفیق مریم نواز، حمزہ شہباز، فریال تالپور، مراد علی شاہ، سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، اعجاز میمن ،خورشید شاہ اور بہت سے اے پی سی میں شامل بڑی جماعتوں کے بڑے بڑے لیڈران پر نیب کے کیسز ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کیسز اس حکومت نے کئے ہیں یا یہ پہلے سے موجود تھے اور اب اپوزیشن میں شامل اکثر جماعتیں ایک دم سے اتنی متحرک کیوں ہو گئی ہیں، کیا منی لانڈرنگ اور اوقاف سے متعلق سخت قانون پاس کرنے کی وجہ سے کہ جن کے بارے میں ابھی عام پبلک کے ساتھ مولویوں کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ ان کی کتنی سخت پکڑ ہو سکتی ہے ،شکنجہ کسا جانے کے خوف میں مبتلا مولانا فضل الرحمن کی سیدھی دھمکی کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو دنیا افغانستان کو بھول جائے گی کیا یہ گیدڑ بھبھکی ہے یا پھر اس میں کچھ حقیقت بھی ہے ،ان تمام جماعتوں میں اگر کسی کے پاس سٹریٹ پاور ہے تو وہ مدارس کے بچوں کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کے پاس ہی ہے وہ چاہیں تو چند دنوں کے نوٹس پر ایک بڑی تعداد سڑکوں پر لا سکتے ہیں لیکن کیا حکومت کے پاس اس کا کوئی توڑ ہے ؟کیا یہ تمام پریکٹس منی لانڈرنگ اور اوقاف کے سخت قانون سے پکڑ میں آنے سے پہلے کا شوروغوغہ ہے یا پھر مارچ میں سینیٹ آنے والے الیکشن کی وجہ سے کہ جس میں ان کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی ۔عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر استعفے آئے تو وہ ضمنی الیکشن کروا دیں گے ،اوپر سے پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کی بھی داغ بیک ڈال دی گئی ہے، پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان کے الیکشن بھی ہونے ہیں اور ابھی تک کرونا کا خطرہ بھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔ کرونا ختم نہیں ہوا کیا ،جلوس اور دھرنے ان حالات میں اتنے کامیاب ہوں گے کہ جن کی تاریخوں کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے جبکہ ان دنوں میں سردی بھی ہو گی ،سانس کی بیماریاں اور کرونا بھی ،کیا ہم اپنے آپ کو کسی قانون کا پابند سمجھتے ہیں ؟کیا ہمیں اپنی اعلیٰ عدالتوں پر بھروسہ نہیں ہے ؟جبکہ سب کہتے ہیں کہ عدالتیں اور میڈیا آزاد ہے اور سوشل میڈیا تو مادر پدر آزاد ہے کیا ہم یہ لڑائی عدالتوں میں نہیں لڑ سکتے، اپنے حقوق کی جنگ عدالتوں میں بھی تو لڑی جاسکتی ہے لیکن نہیں کچھ بھی کہیں حالات یہی دکھائی دیتے ہیں ابھی گھمسان کر رن پڑنے والا ہے جو کہ مارچ سے پہلے تھمتا نظر نہیں آتا تو پھر ابھی حکومت، اپوزیشن، میڈیا اور عوام مارچ سے پہلے مارچ انجوائے کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here