جو انسان بوتا ہے وہ کاٹنا ہے، فطرت کا قانون ہے۔ آپ دوسروں کو بے لباس کرو گے کوئی آپ کے ساتھ بھی وہی کریگا۔ کم ظرفی کی سب سے بڑی نشانی یا ہے کہیں کہ کم ظرف انسان کی پہچان نہیں ہوتی ہے کہ ذرا سی طاقت ملتے ہی اس میں فرعونیت آ جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے۔ بھول جاتا ہے کہ یہ اس کی آزمائش ہے خدا کی ذات دیکر بھی آزماتا ہے اور لیکر بھی آزماتا۔ زمین پر نظریں ڈال کر چلنے والا انسان ٹھوکر نہیں کھاتا۔ اکڑ کر چلنے والے اکثر منہ کی کھاتے ہیں اقتدار کا نشہ دنیا کا سب سے خطرناک نشہ ہوتا ہے اور اگر کوئی انسان اقتدار میں آکر شیطان اور اس کے چیلوں کے ہاتھ چڑھ جائے تو وہ اس انسان کو گہری بستی یا نیچائیوں میں دھکیل دیتے ہیں پھر وہ لوگوں کے ان عیبوں کو اُچھالنا شروع کرتا ہے جو اسکی ذات میں بھی موجود ہو وہ اقتدار کے سہارے لوگوں کی عزت اور مرتبہ سے کھیل کر لطف اندوز ہونے لگتا ہے وہ بھول جاتا ہے کہ اقتدار صدا اس کے ساتھ نہیں رہے گا۔ اعلیٰ ترین اور نہ ختم ہونے والی حکومت قادر مطلق کی ہے دونوں جہانوں کے مالک حقیقی کی ہے۔ زمینی بادشاہ تو آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ جب انسان اپنے کو اتنا طاقتور سمجھنے لگے کہ سوچ کر لوگوں عزت وذلت دینے اور لینے کا کام شروع کردے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کی باری آنے والی ہے۔ سو آج اس سابق وزیراعظم کی باری آگئی جس نے جسٹس جاوید اقبال کے خلاف درخواست گذار خاتون سے یہ کہہ کر چیئرمین نیب کی وہ نازیبا ویڈیو لے لی تھی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرائیں گے اور وہ تسلی رکھیں اب ریاست مدینہ حرکت میں آئیگی اور پھر درخواست گذار خاتون کو وزیراعظم ہائوس کی چار دیواری میں مقید کیا اور انکی مرضی کے خلاف حبس بیجا میں کھا۔ پھر اسی ویڈیو کو ٹی وی سکرین پر نشر کرکے چیئرمین نیب سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے۔ اس شخص کو اتنا شرم نہیں آیا کہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کم ازکم مدینہ کے بابرکت نام کو تو استعمال نہیں کروں۔ لیکن صدر افسوس ہے شخص اقتدار کے نشے میں اتنا اندھا ہوچکا تھا کہ صحیح اور غلط کے فرق کو بھلا چکا تھا۔ اسے اس وقت اقتدار کے ایوان میں بیٹھے یہ یاد نہیں رہا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ اب عمران خان کی باری آگئی اب انکی آڈیوز آگئیں ہیں اور ویڈیوز بھی عنقریب منظر عام پر آئیں گی کل جو بویا تھا وہ آج بمع سود انکو کاٹنا پڑیگا”وت وعز منتشاء وت ذل من تشائ” جب انسان کسی دوسرے کی طرف انگلی اٹھاتا ہے تو لیکن انگلیاں اپنی طرف اٹھ چکی ہیں اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کو یاد رکھو بے عیب خدا کی ذات ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے لیکن انصاف سے مسوب سیاسی جماعت کے غرور وتکبر اس حد تک عروج پر اڑ رہا ہے کہ اپنے مخالفین کو چور اور بوٹ پالش کے طعنہ دینے والے کو آج خود چور اور احسان فراموش کے القاب کا سامنا ہے راستے میں لوگ انہیں گھڑی چور کے نام سے بلاتے ہیں۔ آپ نے تو وعدہ کیا تھا پاکستان کو چرایا ہوا پیسے آپ واپس لائیں گے آپ سے تو زیادہ امدادی رقوم جنرل باجوہ واپس لائے تھے تو آپ کس بات پر اتراتے ہیں کل تک جس جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج وہ عہدے سے ریٹائر کیا ہوئے اپنے ان کو طرح طرح کے ناموں سے بلانا شروع کیا کل تک جس کے احسان گنتے تھے آج ان پر الزامات کی فہرست ہی انجام تک نہیں پہنچتی۔ کیا چیز ہیں آپ کس کھیت کی مولی ہیں آپ کی ان باتوں سے اور کوئی خفا ہو یا نہ ہو لیکن اللہ کے نزدیک یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ پھر آپ کو اپنے آپ پر اتنا زعم ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ میں ”بوٹ پالش کرنے” والوں سے بات نہیں کرونگا جبکہ جس خطے نے آپکو سب سے پہلے مسند اقتدار سونپ کر عزب دی اس صوبہ پختونخواہ میں آج بھی کئی بچے، نوجوانوں اور بزرگ بوٹ پالش کی مزدوری کرکے اپنا اور اپنے لواحقین کا پیٹ پالتے ہیں کوئی محنت کا کام کمتر نہیں ہوتا لیکن آپ ازلی کمتر سوچ رکھنے والے احسان فراموش ہیں کہ آپکو جس جس نے عزت دی وہ آپکی نظروں میں گرتا چلا گیا ہوش کے ناخن لو آنکھیں کھولو عمران خان کہیں دیر نہ ہوجائے!!۔
٭٭٭