رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ: شعبان کے چاند کا شماررکھو، رمضان کے لیے(سننِ ترمذی) یعنی جب ماہِ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ(کے چاند)کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔ (سننِ ابوداود) اُمتِ مسلمہ کے پیچیدہ مسائل میں ایک ریت ہلال کا مسئلہ عظیم و قدیم بھی شامل ہے۔ دیگر ممالک کی طرح، ریاستِ ہائے متحدہ امریکہ میں رہنے والے مسلمان بھی، حلالِ عید کو دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کے بارے میں اسی طرح اختلاف کا اظہار کرتے ہیں جیسے کہ باقی اُمتِ مسلمہ، ہر سال علامہ اقبال کا یہ فرمان بالکل سچ ثابت کر دیتی ہے کہ ہمارا قومی نشان، ہلال نما خنجر ہی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا: تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا! شروع شروع میں جب امریکہ میں ہماری تعداد بہت کم تھی تو ہر کوئی اپنے آبائی ملک کال کرکے پتہ کر لیتا تھا کہ عید بقرعید کب ہے؟ اسی کے مطابق عمل ہوجاتا تھا۔ کچھ دنوں بعد مصلے مسجدوں میں تبدیل ہوئے تو عربیوں اور عجمیوں کو اتحادِ امت کی سوجھی۔ امتِ مسلمہ کے معمولی مسائل یعنی فلسطین اور کشمیر وغیرہ پر تو اتحادِ امت کی اتنی ضرورت محسوس نہ کی گئی لیکن عید کا ایک ساتھ نہ ہونا، اتنا گھمبیر مسئلہ بن گیا کہ کئی مرتبہ نوبت ہلالی خنجروں کے استعمال کے خطرے تک جا پہنچی۔ اسی اور نوے کی دہائیوں تک تو یہ مسئلہ بڑھتا ہی رہا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کو عروج تک پہنچانے والے ہمارے وہ ساتھی ہوتے تھے جو عام طور پر سال کے باقی دنوں میں مساجد کے قریب نہیں آتے تھے لیکن رمضان اور عید کے چاند کے مسئلہ پر سب سے بلند آواز انکی ہی ہوتی تھی۔ ان کے نزدیک یہ اختلاف، حق و باطل کی جنگ سے قطعی کم نہیں ہوتا تھا اور پھر وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنا کلیدی کردار بھی ضرور ادا کرتے تھے۔ باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم ،سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اس موجودہ صدی کے اوائل میں ہی ہمارے امریکی مسلمانوں کو نائن الیون کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ بہت سارے فروعی مسائل پر ہماری توجہ کچھ کم ہوگئی اور زیادہ سنجیدہ جدوجہد زیادہ ہونے لگی۔ رویت حلال کیلئے بھی پہلے تو ایک مستند کیلنڈر بنا جسے کمیونٹی کے ایک بڑے حصے نے اپنایا۔ پھر کمیونٹی کے دوسرے بڑے حصے نے گلوبل مون سائٹنگ کے فتوے کو اپنا کر سعودی عرب کے ہلال کو اپنا لیا۔ اتفاق سے کیلنڈر اور سعودی ہلال کا آپس میں اتفاق ہی رہتا ہے، اس طرح اب تقریبا دو تہائی لوگ تو حق و باطل کی اس جنگ سے باہر نکل آئے ہیں۔ اب تقریبا ایک تہائی کمیونٹی ایسی رہ گئی ہے جو ابھی تک لوکل مون سائٹنگ کے فتوے کو اپنائے ہوئے ہے۔ شکر ہے اب پرانے دنوں والی جنگیں نہیں ہوتیں اور ہمارے حلالی خنجر اپنی نیاموں میں ہی رہتے ہیں۔ علامہ اقبال سے بھی شکایت ہے کہ اپنے اس شعر!
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
میں مسلمانوں کو امریکہ تو پہنچا دیا لیکن ریت ہلال کا مسئلہ حل کر کے نہیں گئے۔ ذاتی طور پر مجھے دو تین عیدوں والے رمضان زیادہ پسند ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ہمارے رمضان اور عیدیں، مولانا محمد یوسف اصلاحی کے ساتھ گزرتی رہی ہیں۔ جب کبھی بھی، میں مولانا محترم سے اس مسئلہ کا حل دریافت کرتا تھا تو فرماتے تھے کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ صرف عید ایک دن ہو جانے سے اتحادِ امت نہیں ہو جائے گا۔ اسی طرح ایک سے زائد عیدوں کے ہونے سے بھی ہمارا اتحاد ختم نہیں ہو گا۔ پھر مسکراتے ہوئے مجھے کہتے تھے، فرخ، ایک سے زائد عیدیں ہونے کی وجہ سے، میٹھی میٹھی سویاں بھی تو کئی دن ملتی ہیں۔ فقہ کے دیگر فتووں سے تو میں اختلاف کر لیتا تھا لیکن مولانا محترم کی اس رائے سے، جس میں کئی دنوں تک سویاں ملنے کا امکان ہوتا تھا، بھلا کس بد ذوق کو اختلاف ہو سکتا تھا؟ اللہ تعالی مولانا محترم کے درجات جنت میں مزید بلند کرے۔ آمین۔
چند دنوں میں، ان شااللہ، ہم پھر ایک مرتبہ ماہِ رمضان میں داخل ہو جائیں گے اور سحر و افطار کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ نیکیوں کے موسمِ بہار کی بات ہی کیاہے۔
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
٭٭٭