اہداف ومقاصد!!!

0
49

اہداف ومقاصد اُمت کے تصور سے مختلف ہی نہیں متصادم ہوجاتے ہیں ،اُمت عقیدہ و عمل کی وحدت سے تشکیل پاتی ہے جبکہ فرقے اپنے مختلف رسوم اور اشعار سے مشخص ہوتے ہیں جب علماء نے فرقہ وارانہ ترجیحات ازسر نو متعین کیں تو نفرت ومحبت کا ہدف بدل گیا۔ اسلام کے اعتقادی وفکری دشمن سے وہ نفرت نہ رہی جو اپنے فرقے کے مخالف سے پیدا ہوگئی ،اُمت کی ذلت پر اتنا ملال نہ رہا جتنا اپنے فرقے کی شکست پر رنج محسوس ہوا ،اُمت کے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ جانے سے علماء اُمت کے پیشوانہ رہے بلکہ اپنے اپنے دھڑے کے رہنما بن گئے جس طرح ہر دھڑا دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل گیا، اسی طرح علماء بھی ایک دوسرے کی پسپائی کی آرزو کرنے لگے ،ظاہر ہے جب علماء اپنے ہی ہم منصبوں سے برسرپیکار ہوں گے تو پھر اعزاز اور وقار کہاں رہیگا؟ مگر رفتہ رفتہ لوگ جب اس مذہبی محاذ آرائی کی ضرر رسانیوں کا مشاہدہ کرتے گئے، شعور عصر بھی نسبتاً پختہ ہوگیا، گرد وپیش سے بھی آگاہی کا دائرہ وسیع ہوگیا اور مواصلاتی رابطوں نے لوگوں کو نئے زاویوں اور مسائل کی نئی جہتوں سے آشنا کیا تو لوگوں کی فرقہ بندی سے وابستگی کمزور پڑتی گئی اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اس وقت اقوام عالم کی صفوں میں اگر پوری اُمت مل کر کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر رہی تو چھوٹے چھوٹے فقہی گروہ بھلا کیا کرسکیں گے؟ علماء چونکہ ان فرقوں کے رہنما تھے وہ بھلا پیچھے کیسے ہٹتے؟ اس طرح عوام اور علماء کے درمیان رشتہ کمزور پڑ گیا، نماز روزہ، زکوة، نکاح، طلاق کی حد تک لوگوں نے علماء سے رابطہ برقرار رکھا لیکن وہ معاملات جن کا سیاسی ومعاشرتی اصلاح اور بگاڑ سے تعلق تھا، اس سلام میں عوام نے علماء کے بجائے دوسرے مراکز ڈھونڈ لیئے یوں علماء معاشرے کے اجتماعی کردار اور منظر سے قریب قریب غائب ہوتے چلے گئے، حق یہ ہے کہ علماء نے جتنا زور اپنے اپنے فرقوں کی توسیع اور استحکام پر لگایا ہے اگر اتنی قوت اور محنت غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لانے کیلئے کرتے تو آج امت اس قدر یتیم نہ ہوتی دعا ہے اللہ کریم ہمیں حصے کی روشنی بکھیرنے کی توفیق مرحمت فرمائے(آمین)۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here