پڑوسیوں کے حقوق!!!

0
73
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

کل25دسمبر تھا۔ میں گھر پر تھا۔ میرا گھر نیویارک شہر سے متصل ایک جزیرے میں ہے۔ جس کو لانگ آئی لینڈ کہا جاتا ہے چاروں طرف سمندر ہے اس کا حدود اربعہ یہ ہے کہ تیس میل چوڑا ہے۔ اور تقریباً ایک سو چودہ میل لمبا ہے کبھی آپ نقشہ دیکھیں۔ تو نیویارک سٹی کے ساتھ ایک لمبی سی لکیر نظر آئیگی۔ یہی لانگ آئی لینڈ ہے میرا گھر بے شور میں ہے۔ میرے دونوں پڑوسی عیسائی ہیں ایک کٹر عیسائی ہے۔ چرچ بھی جاتا ہے اور کتاب مقدس کی تلاوت پابندی سے کرتا ہے۔ دوسرا پڑوسی صرف نام کا عیسائی ہے یہ پولیس میں ہے تو میں گھر پر تھا۔ پہلے پولیس مین نے ایک ڈبہ تازہ فروٹ کا پیک شدہ ایک کارڈ کے ساتھ میرے ہاتھ تھما دیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو کہا آپ کا حق بنتا ہے۔ آپ جیسے پڑوسی گاڈ ہر ایک کو عطا کرے۔ کارڈ کھولا تو اندر میری کرسمس کی بجائے”چھٹیاں مبارک” ہیپی ہالیڈے لکھا تھا۔ میں سمجھ گیا اس نے ایسا کیوں لکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں کہیں ہمارا دل نہ دکھ جائے اس لئے اس نے ہیپی ہالیڈے لکھا۔ بڑا دل راضی ہوا۔ تھوڑے دیر بعد دوسرا پڑوسی بھی آیا چاکلیٹ کا بڑا سا ڈبہ اور کارڈ اٹھایا ہوا تھا۔ حالانکہ کٹر عیسائی ہے اور25دسمبر کا دن بھی تھا۔ مگر اس نے بھی میری کرسمس کی بجائے ہیپی ہالیڈے ہی لکھا تھا ایک خوش گوار حیرت ہوئی۔ اس کے کارڈ میں لکھا تھا انتہائی محبت کرنے والی مفتی فیملی کے لئے اس سارے پس منظر کو لکھنے کا سبب کیا ہے یہ جذبہ ان کے دل میں خود بخود پیدا ہوگیا تھا۔ نہیں جب ہم نئے نئے آئے تھے دونوں میاں بیوی ان کے گھروں میں گئے ان کو تعارف کرایا۔ اور کہا کہ میں امام ہوں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو یا کسی چیز کی ضرورت ہو۔ یا میرے بچے آپ کے کسی کام آسکتے ہوں۔ ہم ہر حال میں حاضر ہیں اور پھر وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ ہدیہ بھیجتے رہنا۔ پہلے پہل گھر میں سبزیاں اُگاتے تھے۔ دونوں گھروں میں سبزیاں بھیچ دیتے۔ مرغیاں پالی ہوئی ہیں، انڈے بھیج دیتے۔ باہر پتوں کی صفائی اپنے گھروں کے ساتھ ان کی صفائی بھی کردیتے۔ الحمد للہ اس کا نتیجہ یہ ہوا۔ کہ اب وہ ہمارے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ سرکار دو عالم نے فرمایا پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک جو مسلمان ہو رشتہ دار ہو اور پڑوسی یہ اعلیٰ پڑوسی ہے۔ دوسرا جو مسلمان ہو پڑوسی ہو۔ اور تیسرا جو صرف پڑوسی ہو کوئی بھی ہو۔ پڑوسی کے حقوق برابر ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک کا غیر مسلم پڑوسی مکان بیچنے لگا تو کسی نے قیمت پوچھی بولا دو ہزار پوچھنے والا حیران ہو۔ یہاں تو قیمت لگ بھگ ایک ہزار دینار ہے دو ہزار کیسے۔ اس نے کہا ایک ہزار مکان کے اور ایک ہزار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کے، سبحان اللہ کیا وقت تھا۔ کاش ہم بھی واپس وہیں آجائیں جہاں سرکار دو عالم ہمیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک پادری دوران صبح کی سیر میرے ساتھ پھرتا تھا۔ شعبان شریف کا مہینہ تھا رمضان میں پھرنے سے معذرت کی تو کہنے لگا میں بھی تمہارے ساتھ روزے رکھوں گا۔ اور تراویح پڑھوں گا۔ میں نے کہا یہ کیسے اس نے کہا تم نہیں جانتے پھرتے پھرتے جو سوالات کرتا تھا۔ انہوں نے میری دنیا ہی بدل دی ہے حالانکہ تم نے کبھی مجھے مسلمان ہونے کی دعوت نہیں دی مگر آج اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ چرچ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ سارے رمضان کے روزے رکھے میرے ساتھ ہی رہا عید کے دن فوت ہوگیا سبحان اللہ عظیم جنازہ تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here