اصطبل کے سیاستدان اور صحافی………!!!

0
133
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان میں سیاسی، صحافتی اور تجزیاتی صورتحال اس وقت انتہائی دلچسپ ہے۔ عام زندگی میں تو کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی زبان پر ڈٹ جاتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں اگر آپ نے بطور سیاستدان ،صحافی یا تجزیہ کار زندگی کو کسی مشکل سے دوچار نہیں کرنا تو آپ کو اپنی زبان پر ڈٹ جانے اور اصولوں کی خاطر قربان ہوجانے جیسے معاملات کو خود سے بہت دور رکھنا ہوگا۔میری یہ بات کوئی مفروضہ نہیں بلکہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔جب پاکستان میں عمران خان بطور وزیراعظم اپنے فرائض انجام دے رہے تھے تو پاکستان تحریک انصاف، ان کے حامی صحافی اور تجزیہ کار اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی فخر کے ساتھ بیان کرنے کے علاوہ ان کی ہر خامی کا ڈٹ کر دفاع کیا کرتے تھے۔ یہی لوگ اس وقت کی اپوزیشن کے خلاف ایسا بیانیہ تشکیل دیتے تھے کہ جس سے اداروں کے خلاف کوئی بھی تضحیک آمیز بیان سننا ناقابل قبول قرار دیا جاتا تھا، اداروں کی آن شان پر مر جانے کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، آرمی چیف کو باپ کا درجہ تک سونپ دیا جاتا تھا۔
اب دوسری طرف اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں یعنی مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی وغیرہ اور ان کے حامی صحافی و تجزیہ کار اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں تمام خرابیوں کی جڑ اور پاکستان تحریک انصاف کو ہر جائز ناجائز کام میں سپورٹ فراہم کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ اس طبقے کا اس وقت خیال تھا کہ پاکستان تباہی کی جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس کے ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے، مزید ان کا یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں عمران خان کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کر رہی ہے۔
مگر اب صورت حال یہ ہے کہ ماضی میں جو تعریف کیا کرتے تھے وہ اب تنقید کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس منہ سے تنقید کریں اور ماضی میں تنقید کرنے والے اب تعریف کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس منہ سے تعریف کریں۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آج بھی اپنا وجود پاکستان میں اسی طرح قائم دائم رکھے ہوئے ہے۔ درحقیقت پاکستان میں سیاسی صحافتی اور تجزیہ کارتی طبقہ اس گھرانے سے اپنے تعلقات کی صورتحال کے پیش نظر ہی اپنے بیانیہ کو تشکیل دیتا ہے۔یعنی یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں عوام کو اس طرح بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ وہ پانچ سال ایک جماعت کے نعرے لگاتی ہے تو اگلے پانچ سال دوسری جماعت کو زندہ باد قرار دیتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ یہ تمام جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل کر پاکستان میں اپنی عیاشیوں کو اسی طرح قائم رکھنے کے لیے کبھی کسی کو ولن اور کبھی کسی کو ہیرو بنانے تماشا ماشا قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اصطبل کے یہ تمام گھوڑے دوڑتے تو ضرور ہیں مگر ان کی باگیں ہمیشہ طاقتور جرنیلوں کے ہاتھوں میں رہتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here