مری میں ایمرجنسی اداروں کا قیام ضروری!!!

0
98
مجیب ایس لودھی

حالیہ برف باری کے دوران مری اور گلیات میں کئی مقامات پر سیاحوں کی المناک اموات کے بعد عوام میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ ان اموات کا ذمہ دار کون ہے؟لیکن اس سے قطع نظر ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مری میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی ادارے قائم تھے یا نہیں، یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ راستوں سے برف ہٹانے والی مشینوں میں پٹرول اور ڈیزل ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے بروقت اقدامات شروع نہیں ہو سکے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی ادارے قائم کیے جائیں جوکہ تمام سہولیات سے لیس ہوں تاکہ بروقت اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔ پہلے ہمیں ان اجتماعی رویوں کو دیکھنا ہو گا جو ایسے سانحوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ ایسے ہنگامی حالات میں ریاستی، سماجی اور انفرادی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمیں ان رویوں کو سمجھنا ہو گا جن کی وجہ سے ہم اپنی یا اپنے ساتھ مشکل میں پھنسے دوسرے افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں؟کسی بھی اندوہناک سانحے کے بعد سب کی نظریں حکومت کی طرف اُٹھتی ہیں کہ اس ہنگامی صورت حال سے بچاو کے لئے ریاستی اقدامات کیا تھے؟ ہنگامی صورت حال سے نبٹنے کے لئے کون سا ادارہ مرکزی ہے؟ کس ادارے نے موسمی ہنگامی حالات کے حوالے سے حوالے سے پیشگی انتظامات کو یقینی بنانا ہے؟برف باری کے نتیجے میں ہونے والے مری سانحے کے حوالے سے کون کون سے ادارے تھے جن کی ذمہ داری تھی کی سخت موسم میں سیاحوں کو کسی مشکل صورت حال سے بچایا جا سکے؟ برف باری والے علاقوں میں سڑکوں کی کیا حالت تھی اور اس علاقے میں کتنے سیاحوں کے ٹھہرنے کی گنجائش ہے؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لئے ہمیں جاننا ہو گا کہ برف باری کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورتحال کو قابو کرنے کے لئے کون کون سے ادارے کام کر رہے تھے اور کیا انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی یا نہیں؟ہنگامی صورتحال میں عوام کی جان و مال کا تحفظ قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری ہے، موسمی خطرات کے حوالے سے عوام اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا اور ان سے اس حوالے سے انتظامات کروانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔ پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ کرونا اور سموگ کے مسائل کے حوالے سے تو خاصی معلومات فراہم کرتی ہے لیکن برف باری کے خطرے اور اس ہنگامی صورتحال سے بچائو کی واجبی سی معلومات مہیا ہیں۔ ہنگامی حالات میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال بھی ان اداروں کو مشکل کا شکار عوام کی رہنمائی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن ان اداروں کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجودگی بھی نا ہونے کے برابر ہے۔حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج سے کہیں زیادہ شدومد سے صحافت کے نام پر ہماری ذہن سازی کو مامور کئے افراد کا گروہ اصرار کئے جارہا ہے کہ مری کی حالیہ برف باری کے دوران جو المناک واقعات ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار فقط ہمارے عوام ہیں۔تفریحی مقامات کی جانب گاڑیوں میں بچوں کو لاد کر روانہ ہونے سے قبل وہ موبائل فونوں پر میسر محکمہ موسمیات کی فراہم کردہ تازہ ترین معلومات سے رجوع نہیں کرتے۔ بالاآخر برف میں دھنس جاتے ہیں تو حکومت کو اپنے پر نازل ہوئی آفت کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوجاتے ہیں۔یوں سفاکانہ رعونت سے پاکستان کی تاریخ میں ”پہلی بار” نمودار ہوئی صاف ستھری اورمستعد انتظامیہ کو سیاپا فروشوں سے بچانے کی کوشش ہورہی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ ہنگامی اداروں کے قیام کو یقینی بنائے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی صورتحال کے دوران بروقت اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے۔پہاڑوں پر ہوئی برف باری بھی ایسا ہی ایک موقع فراہم کرتی ہے۔اس سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونے کی خواہش میں ہمارے ”جاہل” عوام کسی بھی نوع کی احتیاط برتنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔سمجھ بوجھ سے کامل محروم اور بچگانہ غفلتوں کی مبینہ طورپر عادی ہوئی خلق خدا مگر مائی باپ کہلاتی سرکار کی رعایا بھی تو ہے،سوال اُٹھتا ہے کہ سخت گیر والد یا استاد کی طرح ہماری سرکار نے مری میں اپنی موجودگی کس انداز میں دکھائی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت سیاحوں کے مری آنے پر ٹول ٹیکس نافذ کرے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو سیاحوں کو فراہم کردہ سہولیات پر خرچ کیا جائے، ایمرجنسی ادارے قائم کرنے کے ساتھ ہنگامی فون ہیلپ لائن بھی متعارف کروائی جانی چاہئے تاکہ سیاح گھروں سے نکلنے سے قبل فون پر راستوں کی بندش اور موسم کے بارے میں معلومات حاسل کر سکیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here