فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! حضور نبی کریمۖ کے تمام صحابہ واہل بیت رضی اللہ عنھم کی عظمت وشان کا کیا کہنا؟ تابعین وتبع تابعین اور قیامت تک آپ ۖ کے غلاموں کی شان کی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ دنیا وآخرت میں وہی کامیاب ہے جو ان تمام نفوس قدسیہ کا ادب واحترام کرتا ہے اور اس ادب و احترام کو اپنے لئے سعادت ونیک بختی سمجھتا ہے۔ آپ ۖ کے صحابہ کرام میں سے ایک صحابی رضی اللہ عنھم اجمعین کا تذکرہ زیب قرطاس کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذکر کی برکت سے عالم اسلام پر اپنا خاص فضل وکرم فرما کر ہر میدان میں فتح ونصرت اور غلبہ سے نوازے آج سرکار ۖ کے ایک چہیتے صحابی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ ایک پروانہ اس محفل نور سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا تھا، جہاں عرش کی قندیل کا چراغ ہر وقت فروزاں رہتا تھا۔ مدینے کے چمنستان کرم میں اب بھی ہزاروں پھول کھلے ہوئے تھے لیکن عندلیبان چمن کے فروغ محبت کا یہ حال تھا کہ صرف ایک پھول مرجھا گیا تھا تو ہر طرف سوگوار اداسیوں کی شام ہوگئی تھی۔ بھیگی بھیگی پلکوں کے سائے میں جنازہ اٹھا تو غمگستاروں کے اژدھام سے گلیوں میں تل رکھنے کی جگہ باقی نہیں تھی خود کائنات ہستی کے سرکار اعظم ۖ بھی اپنے شیدائی کی مفارقت سے بہت زیادہ غمگین اور آبدیدہ تھے۔ مدینے کے مشہور قبرستان جنت البقیع میں جب لوگ جنازہ لے کر پہنچے تو لحد تیار ہوچکی تھی جنازہ اتارنے کے لئے سرکار خود بنفس نفیس لحد میں تشریف لے گئے اور اپنے نورانی ہاتھوں سے جنازہ کو فرش خاک پر لگایا۔ سرکار کی ادارئے رحمت پر ہر شخص مچل کے رہ گیا کہ کاش! مرنے والے کی جگہ پر ہم ہوتے اور سرکار علیہ الصّلوٰة والسّلام کے قدسی ہاتھوں سے ہماری لاش سپرد خاک کی جاتی۔ عالم گیتی کے مسافر کو گلشن جناں کی سیر کے لئے اپنی خوابگاہ سے دو قدم بھی نہیں چلنا پڑتا جنت کی ساری بہاریں مرقدہی میں سمٹ آئیں۔ جس کی لحد میں جنازہ سے پہلے رحمت یزدانی اتر آئی ہو آخر اس پر رشک نہ کیا جائے تو اس بھری کائنات میں اس سے زیادہ اور کون قسمت کا دھنی ہوسکتا تھا؟ مراسم تدفین سے فارغ ہوکر سرور کائنات ۖ کا شانہ اقدس کی طرف واپس ہوئے یونہی دولت سرائے اقبال میں قدم رکھا تو امّ المئومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا حاضر خدمت ہوئیں۔ اور نشاط قلب و روح کے ساتھ سرکار کا خیرمقدم کیا رخ زیبا پر نظر پڑتے ہی ارمانوں کا غنچہ کھیل اٹھا اور چشمہ نور کی سطح خاموش پر موجوں کی کرن پھیل گئی جس کے گوہر دنداں کی جوت سے حرم سرا کی دیواریں چمک اٹھتی تھیں۔ اسی کے جلووں کے سویرے میں سیدہ عائشہ پیکر حیرت بنی کھڑی تھیں۔ زبان خاموش تھی لیکن آنکھوں میں کسی مخفی حقیقت کے تجسس کا اضطراب مچل رہا تھا۔ کبھی سرکار کے پیراہن کو دیکھتی تھیں کبھی کا کل ورخ پر نظر ڈالتی تھیں۔ اسی عالم تحیر میں سرکار کے بالکل قریب پہنچ گئیں۔ اور سر سے پاتک حضورۖ کے پیراہن کا جائزہ لیا، آج ان پر حیرت کا کچھ ایسا کیف طاری تھا کہ زبان نہیں کھُل رہی تھی۔ اندر ہی اندر دل کا عالم زیرو زبر ہو رہا تھا۔ تلاش وطلب کی حیرانی کا یہی عالم تھا کہ لب ہائے گوہرریز کو جنبش ہوئی اور سرکار نے ارشاد فرمایا، عائشہ! کیا تلاش کر رہی ہو؟ تمہاری جستجو کا یہ اضطراب بتا رہا ہے کہ کوئی حیرت انگیز واقعہ تمہاری نگاہ سے ضرور گزرا ہے ورنہ اس سے پہلے اپنی آمد کے موقع پر تمہاری مسرت کے ساتھ ساتھ حیرت کا یہ عالم میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔ اس سوال پر حضرت امّ المئومنین کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ فرط شوق میں عرض کیا، سرکار آج آپ کے قبرستان تشریف لے جانے کے بعد بڑے زور کی موسلادھار بارش ہوئی ہے۔ مدینے کے سارے ندی نالے جل تھل ہوگئے ہیں ہر طرف سیلاب امڈ آیا ہے لیکن حیرت ہے کہ نہ قبرستان میں چھپنے کی کوئی جگہ ہے نہ آپ کے ساتھ بارش سے محفوظ رہنے کا کوئی سامان تھا۔ آخر اتنی موسلادھار بارش کہاں گئی؟ نہ آپ کے چہرے پر بوند کا کوئی اثر ہے نہ بالوں میں نمی ہے نہ پیراہن ہی تر ہوا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر کیا واقعہ میرے ساتھ پیش آگیا ہے؟ عالم اسباب کی کھڑیاں ملاتی ہوں تو ایک کڑی بھی نہیں مل رہی ہے۔ حضرت امّ المئومنین کا یہ جواب سن کر سرکار نے پھر ارشاد فرمایا: واقعہ غلط نہیں ہے ضرور تمہاری آنکھوں نے برستے ہوئے بادل دیکھے ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ میں حقیقت کے چہرے سے نقاب کشائی کروں تم سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میرے جانے کے بعد تم نے میرے استعمال کا کوئی کپڑا تو اپنے سر پر نہیں رکھ لیا تھا؟ آپ نے عرض کیا آپ کی وہ یمنی چادر جس کے جھرمٹ میں روح الامین وحی لے کر اترتے ہیں اسے دوپٹے کی طرح میں نے اپنے سر پر ڈال لیا تھا۔ فرمایا، عائشہ! یہ وہ بارش نہیں تھی جس سے کپڑے بھیگتے ہیں اور زمین نم ہو جاتی ہے بلکہ یہ بارش نور تھی جو عالم غیب میں ہر آن میرے اوپر برستی ہے میرے نورانی جسم سے مس ہونے والے کپڑے کو جونہی آپ نے سر پر رکھا عالم غیب کے سارے حجابات اٹھ گئے اور تمہاری آنکھوں نے عالم قدس سے برسنے والی بارش کیا مشاہدہ کیا جس رسول پاک کے جسم اقدس سے لگی ہوئی چادر کا یہ فیضان ہے تو خود اس رسول محترم ۖ کے مشاہدہ غیب کا کیا عالم ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہمیں حقائق کو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭













