حیا میں ہے حیات!!!

0
127

عربی گرائمر کے مطالعے سے پتہ چلا کہ حیا اور حیات کا روٹ ورڈ ایک ہی ہے ،حیات کے لئے اردو میں زندگی کا لفظ بولا جاتا ہے گویا کہ زندگی حیا کے اندر چھپی ہوئی ہے حیا جتنی زیادہ ہوگی زندگی اتنی طویل لمبی اور پرسکون ہوگی جب حیا بڑھتی ہے تو زندگی بھی طویل ہوتی ہے چاہے افراد کی ہو یا قوموں کی، جب حیا بڑھتی ہے تو سب سے پہلے اللہ سے حیا آنی شروع ہوتی ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے اور اسی کو ایمان کہتے ہیں اسی کی بنیاد پر انسان کاہر ایکشن بدل جاتا ہے ،اس کے سوچنے کا انداز گفتگو کا سلیقہ پسند ناپسند شوق دلچسپیاں، لباس کردار حال حلیہ سب پر حیا کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔
نبی کریم نے فرمایا اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسے اس سے حیا کرنے کا حق ہے صحابہ نے فرمایا بیشک ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر اس کا شکر بھی ادا کرتے ہیںآپ نے فرمایا حیا یہ ہے کہ تم سر اور اس میں آنے والے خیالات کی حفاظت کرو پیٹ اور جو کچھ اس میں جاتا ہے اس کی حفاظت کرو، موت کو یاد رکھو اور مٹی میں مل جانے کو یاد رکھو، آخرت کی چاہت میں دنیا کی زینت کو چھوڑ دو جس نے یہ کر لیا ،اس نے حیا کا حق ادا کر دیا ۔ یعنی سوچوں کو درست رکھنا اس لئے کہ یہاں سیہی توحید کی حفاظت ہوتی ہے کیونکہ جب عقل میں فتور آتا ہے تو انسان کے ہر اعضا سے تکبر جھلکنے لگتا ہے۔ پیٹ میں جانے والی چیزوں کی حفاظت یہ ہے کہ پاکیزہ اور حلال رزق سے وہ انرجی حاصل ہو جو جسم اور دماغ پر اچھے اثرات مرتب کرے، موت کو یاد رکھنے سے مطلب یہ ہے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز کو عارضی اور وقتی سمجھو یہاں دل نہ لگانا آخرت کی چاہت میں دنیا کی زندگی چھوڑ دینے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ جائز اور حلال خوشیوں سے منہ موڑ لیا جائے ان سے مستفید ہوتے ہوئے ہر لمحے آخرت کی جوابدہی کی فکر کرنا یہی اللہ کے نزدیک حیا والی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حیا کے تمام اینگل ایڈاپٹ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں یہ یاد رہے کہ ہم اس دنیا میں بڑے انسان بننے کے لئے نہیں آئے بلکہ اچھے انسان بننے کے لئے آئے ہیں یہ بات خود کو بھی یاد رکھنی ہے اور نسلوں کو بھی باور کروانی ہے اچھی طرح اس لئے کہ دونوں جہانوں کی حیات اسی حیا میں ہے اگر حیا نہیں تو زندگی بھی نہیں تو سوال یہ ہے کہ حیا کے بغیر کسی موت ہوتی کس طرح کی حیات ختم ہو جاتی ہے۔ حیا کے بغیرانسان کی روح موت کی حالت سے گزر رہی ہوتی ہے اس کے ایمان کی عزت کی شرافت کی سب کی حیات میں کمی آنے لگتی یعنی اس کی ساری بھلائیاں اور خیر قریب آل مرگ ہو جاتی ہیں جس کا ظہور اس کے لائف اسٹائل بول چال رہن سہن لباس وضع وقطع سے ہونا شروع ہو جاتا ہے یعنی سب سے پہلے اللہ سے حیا ختم ہو جاتی ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے حیا کا رنگ جیسے جیسے اڑنے لگتا ہے چاہے وہ فرد ہو معاشرہ ہو اقوام ہوں برادری ہو اس کی حیات کم ہونے لگتی ہے ہم مسلمانوں نے جب سے حیا کا دامن چھوڑا ہے ،ہر زاویئے سے حیات میں کمی بلکہ قریب آل مرگ ہیں ،تمام اسلامی ممالک کا جائزہ لیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ جیسے جیسے اسلامی ثقافت کا دامن چھوڑتے گئے بے حیاء کو گلے لگاتے گئے ،ان کی عزت اور وقعت کی حیات کم سے کم تر ہوتی گئی، ترقی کہ سارے ذرائع وسائل ہونے کے باوجود عراق لیبیا مصر لبنان فلسطین سب نے حیا کے بغیر جینا چاہا اور اب پاکستان کی باری ہے پاکستانی خواتین پہلے دنیا کہ کسی بھی خطے میں ہوتی تھی اپنی حیا دارانہ لباس کی وجہ سے منفرد نظر آتی تھیں لیکن دشمن نے اب نقب لگانے کے لئے ہماری خواتین کا انتخاب کیا ہیاور خواتین نے اس کام کے لئے خود کو پیش کردیا ہے یہ سوچے بغیر کے یہ حیا کی موت در اصل انکی نسلوں کی روحانی موت ہے ،ان کے ایمان پہچان شناخت کی موت ہے انھوں نے تباہ شدہ اسلامی ممالک سے بھی سبق حاصل نہ کیا۔ فلسطین ہی کو لے لیں بیت المقدس کے رکھوالے یہ لوگ جب ان کی خواتین کو دیکھیں تو یقین نہیں آتا ہے کہ یہ اس سر زمین کی خواتین ہیں۔ جب میں سعودیہ میں رہتی تھی تو میرے اپارٹمنٹ کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک فلسطینی فیملی رہتی تھی ،بہترین اخلاق ، معاملہ فہم ، سخی ، خدمت گذار ، جی دار، ہرمشکل میں کام آنے والی محنتی، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا تو میں نے اس سے سیکھا اس کو دیکھ کر میں اکثر سوچتی تھی کہ اگر فلسطینی ایسے ہوتے ہیں تو ان پر یہ اسرائیل کا عذاب اللہ نے کیوں ڈالا ان کو اپنی زمین میں بیگانہ کیوں بنا دیا۔ آج جب حیا اور حیات کا تفصیلی مطالعہ کر رہی تھی تو وہ فلسطینی خاتون بڑی یاد آئی فلسطینی مسلمانوں کی نسل در نسل حیات سے بیگانہ زندگی کی وجہ سمجھ آئی کہ اقوام کی حیات کا تعلق تو حیا سے ہے خاص کر مسلمان قوم کا یاد آیا کہ اس عورت کے اندر سب کچھ تھا مگر لباس میں بڑی بے حیائی تھی، وہ نائٹی پہن کر سارا دن گھر میں بچوں کے سامنے پھرتی رہتی کبھی جب ضرورت ہوتی ایسے ہی میرے گھر آجاتی ایک تو نائٹی دوسرے see through پھر اسکا سائز گھٹنے سے نیچے کم ہی ہوتا۔ کھلے گلے الگ سمجھ نہیں آتا کہ کیسے بتائوں کہ یہ لباس حیا کے منافی ھے اللہ کے غضب کو بھڑکانے والے ہیں حیا تو مائیں ہی گھونٹ گھونٹ اپنے بچوںکو پلاتی ہیں تو جب مائیں ہی اللہ سے حیا کرنا چھوڑ دیں گی تو ایسی نسلیں کیسے پیدا ہونگی جو حیا کی حفاظت کرنے والی ہوں جن کی حیات طویل ہو جن کو دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی حیات ملے اور وہ اللہ کے یہاں زندہ افراد زندہ اقوام میں شمار ہوں پرائی اقوام کے رنگ و بو کے پیچھے بھاگنے والوں کو اللہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ دنیا میں مرنے سے پہلے ہی مٹ جاتی ہیں اللہ ہمیں ایسی موت سے محفوظ رکھے اور اپنی حیا کی حفاظت کرنے والا بنائے دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں یہ بشارت ملے کہ تم نے حیا کا حق ادا کر دیا۔ امین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here