mukarampeer@gmail.com
کہتے ہیں کہ”جینا ہے تو جراب اظہار نہ مانگو“ بےشک سچ کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہے۔سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔منصورالی ھلاج کو پرتشدد اذیت پہنچا کردار پر ٹانگ دیا گیا۔پاکستان میں جس ناصر اور نذیر عباسی کو انقلابی سوچ رکھنے پر دو ترین اذیتیں دیکر قتل کردیا۔لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ عدلیہ جو کئی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہے اسکا ایک رکن باغی ہوگیا ہے۔اب ان سے دباﺅ میں آکر غلط فیصلے کرنا نہیں چاہتا وہ آئین کی پاسداری چاہتا ہے قانون کی بالادستی چاہتا ہے اور یہی اس کا جرم بن گیا ہے۔انکی شخصی اور خاندانی حرمت کو سربازار اچھالا جارہا ہے۔لفافہ صحافت اسٹیبلشمنٹ کا ایک روزار بن کر جسٹس قاضی عیسیٰ سے وہ لغو اور بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے۔جسکا سر سے کوئی وجود نہیں اس میڈیا ٹرائل سے تنگ آکر اب جسٹس عیسیٰ نے فل بنچ میں درخواست دے دی ہے کہ اگر مجھے پھانسی پر چڑھانا مقصود ہے تو کھلے عام سرے عام چڑھاﺅ اور عدالت کی کارروائی کیلئے عدالت کے دروازے کھول دیں عوام براہ راست عدالتی کارروائی دیکھ سکے تاکہ لفافہ صحافیوں کو افواہیں پھیلانے کا موقعہ نہ مل سکے۔اور اب اگر بنچ اس درخواست کو رد کرتی ہے تو پھر اس امر کی تصدیق ہوجائیگی کہ دال میں کچھ کالا ہے اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔بہرحال جسٹس قاضی عیسیٰ نے جدوجہد کی بنیاد ڈال دی ہے ایک سنہری موقعہ ہے کہ عدلیہ کو آزاد کروانے کا تاکہ وہ کسی دباﺅ یا اثررسوخ کے بغیر آئیں اور مروجہ قانون کے مطابق فیصلے کر پائیں۔اب عوام منتظر ہے کہ فاضل جج صاحبان کیا فیصلہ دیتے ہیں۔یہ ایک تاریخی فیصلہ ہوگا پاکستان کی عدلیہ کا مستقبل اسی سے اپنا رخ اپنا راستہ طے کریگا۔ادھر سینیٹ میں انتخابات میں پی ٹی آئی ممبران کی فلور کراسنگ کا آغاز ہوگیا تقریباً سترہ پی ٹی آئی ممبران نے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیکر اپنے امیدوار حفیظ شیخ کو ہرا دیا۔حفیظ شیخ ہر حکومت میں خزانہ کے مشیر یا وزیربنتے ہیں۔بے فیض آدمی ہیں۔عالمی مالی اداروں کے کوٹہ پر پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر رہتے آئے ہیں۔بجا طور پر اب ممبران پارلیمنٹ ان سے تنگ آکر بجنگ آمد ہوگئے ہیں۔کچھ ممبران کو ن لیگ نے پنجاب میں آئندہ الیکشن میں ٹکٹوں کا وعدہ اور پی پی پی نے حمایت کا وعدہ کرکے راضی کرلیا۔لیکن پاکستان کی سماجی سیاسی اور اخلاقی صورتحال کی ترجمانی سینیٹ کے انتخابات نے کردی ہے۔
اب یوسف رضا گیلانی صاحب کو چیئرمین سینٹ کے لئےPDMنے نامزد کردیا ہ۔یاد رہے کہ گیلانی صاحب1993میں قومی اسمبلی کے سپیکر بھی اسی کے ہیں۔اور2008ءسے2012تک وزیراعظم پاکستان بھی تھے۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ انکا انتخابات بطور چیئرمین سینٹ بھی تقریباً طے پا چکا ہے۔اور صادق سنجرانی صاحب کا جانا ٹھر گیا ہے۔کیونکہ جو فیصلے راولپنڈی میں ہوتے ہیں انہیں اسلام آباد والے بےچارے بدل نہیں سکتے۔وزیراعظم عمران خان چیختے چلاتے رہیں اب جس رسی کو وہ تھامے ہوئے تھے۔اس رسی کا بوکاٹا ہوچکا ہے۔اور وہ رسی کسی اور نے پکڑ لی ہے۔اب وہ تیاری کرلیں واپس لندن جانے کی کیونکہ بنی گالا والے محل کا وہی حشر ہونے جارہا ہے۔جو کسی زمانے میں جاتی امرہ کا مشرف نے کیا تھا۔یتیم خانہ اور عمر رسیدہ لوگوں کی پناہ گاہ بنا دیا تھا۔میں تو خان صاحب کو یہ تجویز دونگا کہ وہ ابھی سے بنی گالا والے گھر کو اسی مقصد کیلئے مختص کردیں۔واہ واہ بھی ہوجائیگی۔اور بعد میں خفت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ویسے بھی عمران خان کو دنیا بھر میں شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
منافقت کے اس گوناگوں دور میں سچ کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح ہوتی ہے۔جو کسی کو سننے میں نہیں آتی کیونکہ جھوٹ کے نقار خانے کی گونج بہت تیز اور پر شور ہوتی ہے۔اس لئے جسٹس قاضی عیٰسی کی موجودگی سخت گرمی کی شدت میں ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی سہی ہے۔مادیت پرستی کے اس دور میں لوگوں کو اپنی موت یاد نہیں رہتی ہے حالانکہ ہم روز سنتے رہتے ہیں کہ فلاں مر گیا پھر بھی ہم غافل ہیں۔پرانے شعر جس کو سب یاد کریں کہ:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا کل کی خبر نہیں!
٭٭٭٭٭