سلیم صدیقی، نیویارک
32کروڑ مختلف رنگ ونسل قومیتوں مذاہب اور تہذیبوں پر مشتمل ریاست ہائے متحدہ امریکہ نہ صرف ایک جغرافیائی قدرتی حسن محفوظ اور وسائل سے مالامال ملک ہے ، اتنے ہی حسین لوگ اس کا اثاثہ ہیں جو دنیا کے ہر حصے سے ہجرت کرکے اس امریکن خواب کی تعبیر حاصل کرنے سکونت اختیار کرتے آئے ہیں اور انہی امیگرنٹس نے اس ملک کو عظیم تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسی لئے قوم کو نیشن آف امیگرینٹس کہا جاتا ہے۔ اس ملک کی جغرافیائی کی حیثیت نے بھی اسے محفوظ اور ترقی کی شاہراہ پر عظیم تر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، میکسیکو اور کینیڈا جیسے پرامن دوست ہمسائے کسی طور پر بھی خطرہ نہیں بنے، ماسوائے میکسیکو سے غیر قانونی امیگرنٹس کے داخلے کے بحرالکاحل اور بحر اوقیانوس جیسے سمندروں نے امریکہ کو قدرتی حصار مہیا کر رکھا ہے۔
اسی لئے بڑی بڑی ا فواج کی جگہ تربیت یافتہ ریزرو فوجی دستے بوجھ کی بجائے ایمرجنسی میں طلب کئے جاتے ہیں ،بحری اور فضائی بیڑے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس دنیا بھر کے سمندروں اور کئی ممالک میں تعینات ہیں اور چند گھنٹوں کے نوٹس پر میرینز وہاں پہنچ کر کارروائی کرتے ہیں، حالیہ برسوں میں کویت ،عراق، یمن ،شام ،لیبیا ،افغانستان ،صومالیہ میں کارروائیاں انہی بیڑوں سے کی جاتی ہیں، کئی ممالک اور جزائر میں موجود فوجی اڈے اس واحد سپر پاور کی دھاک میں اضافہ کرتے ہیں۔ سوویت یونین کو توڑ کر واشنگٹن سے براہ راست کنٹرول کرنے والی بیرونی حملوں سے محفوظ یہ اکلوتی سپر پاور اس وقت اندرونی حملوں سے لرزہ بہ انسان ہے ،کرونا کے بدترین حملے کے بعد اب تک ہم آہنگی سے مزین یہ قوم اندرونی بدامنی کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے جس وقت یہ کالم تحریر کررہا ہوں ،وائٹ ہاو¿س کے باہر فوج نے پوزیشن سنبھال لی ہے ،ملٹری پولیس اور پرامن مظاہرین میں ہاتھاپائی ہو رہی ہے۔گزشتہ ہفتے منی آپلس میں ایک نہتے سیاہ فام کو صرف 20ڈالر کے جعلی نوٹ رکھنے کے الزام میں نسل پرست پولیس والوں نے گردن پر گھٹنااس وقت تک دبائے رکھا جب تک اس کا دم نہیں نکلا وہ آخری سانس تک دہائی دیتا رہا کہ i can,t Breath مگر سنگدل پولیس والوں کو اس پر رحم نہ آیا ۔یوں تو سیاہ فام اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کی طویل داستان ہے مگر نیویارک کے علاقے سٹیٹن آئی لینڈ میں اسی قسم کے ایک واقعے میں ایرک گارنر کو محض ایک سگریٹ بیچنے کے الزام میں نیویارک پولیس نے گردن پر گھٹنا دبا کے مار دیا۔ اس کے آخری الفاظ i can,t Breath ایک قومی نعرہ بن گیا جسکی گونج آج گلی گلی کوچے کوچے گونج رہی ہے ۔سول لبرٹیز کے عظیم رہنماءمارٹن لوتھر کنگ نے ایک نعرہ دیا تھا۔I Have A Dreamانہوں نے احساس محرومی کے شکار لوگوں کو پرامن تحریک کے ذریعے شعور دیا ۔وہ نعرہ آج بھی تحریکوں کے لئے مشعل راہ ہے مگر نئے نعرے نے احساس محرومی اور عدم مساوات کے شکار لوگوں کو مشتعل کردیا ہے ۔وہ اب کسی کو سننے کو تیار نہیں ،ایک لائیبیرین امیگرنٹ نے CNN کو بتایا کہ ہمارے آباو¿ اجداد کو بیڑیوں میں جکڑ کر غلام بنا کر لایا گیا۔ امریکہ کی بنیادوں میں انکے خون سے آبیاری کرکے انکی اولادوں کو ملک بدر کردیا گیا، آج یہ تحریک اس ظلم محرومی اور عدم مساوات کے خلاف تحریک ہے مگر صدر ٹرمپ اور موجودہ اور سابق قومی سلامتی کے مشیر بائیں بازو اور بیرونی ہاتھ قرار دے رہے ہیں۔ تحریک روکنے کے لئے اب پاکستان کی طرح ہائی ویز کو بند کردیا گیا ہے، واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ کسی نے وائٹ ہاو¿س کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو خونخوار کتے اور مسلح فوجی انکو بھون ڈالیں گے اور پیر کی شام انھوں نے کر دکھایا پرامن مظاہرین پر چڑھائی کردی اور اس دوران اپنی شان و شوکت دکھانے پیدل بند چرچ جا پہنچے فوٹو بنایا اور محافظوں کے حصار میں پیدل ہی واپس روانہ ہو گئے۔
کرفیو کے باوجود عوام کا جم غفیر سڑکوں پر ہے ،ہر رنگ ونسل کے لوگ ناانصافی اور پولیس گردی کے خلاف خلاف فوج کے خلاف سینہ سپر ہیں ۔پاکستان اور تیسری دنیا کے مناظر امریکہ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، تھوڑی دیر قبل صدر ٹرمپ نے قوم سے مختصر خطاب میں فوجی دستے ملک بھر میں تعینات کرنے کے 1807 کے قانون کے تحت احکامات جاری کئے ،سی این این کے اینکر ڈان لیمن بے اختیار چلا اٹھا کہ ہمارے صدر نے اپنی ہی عوام پر فوج کشی کا آغاز کردیا ہے، یہ ہمارے لئے سیاہ دن ہے۔
اس وقت اٹانی جنرل ولیم بار اور مسلح افواج کے سربراہ واشنگٹن کی سڑکوں پر ہیں اور اپنے جوانوں کے جوانوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں، کبھی یہ قیادت افغانستا ن عراق کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے جوانوں کو داد شجاعت دیا کرتی تھی ،آج جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن کی قوم پر امن وامان کے لئے متعین فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے دورے کررہے ہیں۔ غالبا 1850کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سول وار والی صورت حال کو ہوا دی جارہی ہے، صدر ٹرمپ نے واضح دھمکی دی کہ ریاستی گورنروں اور مئیرز نے کوتاہی کی تو انہوں نے فوج تعینات کرنے کے حکامات پر دستخط کردئے ہیں مگر ایلی نائے اور نیویارک کے گورنروں نے ان حکامات کو مسترد کردیا ہے۔
گزشتہ صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے نتیجے میں منتخب ہونے صدر ٹرمپ کے خلاف تحقیقی کمیشن بھی بنا مگر نتیجہ متنازعہ بنا دیا گیا سرد جنگ میں سوویت یونین کے ٹکڑے کرنے والا یہ عظیم طاقتور ترین ملک آج اپنی قوت اور دبدبہ اور معاشی ترقی اور بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے ،پورا ملک کورونا کے حملے کے بعد سے بند ہے 4کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں، مرسڈیز والے خیراتی خوراک کے لئے طویل قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
امریکن خوبصورت خواب اب بھیانک خواب بنتا جارہا ہے ،کچھ لوگ دبے الفاظ میں انجینئرڈ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیاں انہیں امریکہ کا گورباچوف بنا نے کے لئے کافی ہیں، ہماری دعا ہے کہ طویل سول وار کے بعد سکھ کا سانس لینے والی قوم اس بحران سے بھی کامیابی سے ہم کنار ہو، امریکی حکومت اور اسٹیبلشلمنٹ کی تمام ظالمانہ پالیسیوں کے برعکس امریکن قوم اور سوسائٹی ایک ہمدرد، نرم دل اور انتہائی مہربان ہے جنہوں نے ظلم و استبداد کے شکار محروم لوگوں کو پناہ دی ہے حتیٰ کہ ظلم کے شکار عراقی، افغانی ، شامی، یمنی باشندے بھی خوشحال زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیںبلکہ بدنام زمانہ گوانتانامو کے قیدی بھی رہائی کے بعد امریکہ میں ہی بقیہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
٭٭٭