مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
فساد کیوں پھیلتا ہے؟ اس کے بہت سارے راستے ہیں، ان میں ایک راستہ پیٹ بھر جانا ہے، چونکہ آگے گنجائش نہیں ہوتی اور پہلا ہضم نہیں ہوتا اس لئے وہ فساد پھیلانا شروع کر دیتا ہے اور جب اس سے کہاجائے فساد کیوں پھیلا رہے ہو تو جواب دے گا آپ کو غلطی لگی ہے، غلط فہمی ہوئی ہے میں تو اصلاح کر رہا تھا۔ کچھ ہمارا امریکہ والوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اب فساد پھیل گیا ہے اور پھیلتا ہی جا رہا ہے، اس وقت چالیس شہروں میں کرفیو لگ چکا ہے تقریباً بیس بائیس شہر فوج کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ میرے شہر نیویارک میں بھی کرفیو لگ چکا ہے۔ ابھی کرونا کی مصیبت سے نہیں نکل پائے تھے کہ اب فساد ایک نئی مصیبت بنتا جا رہا ہے۔ چلو مظاہرہ کرنا حق تھا مگر یہاں تو لُوٹ مار شروع ہو چکی ہے، لوگ دکانیں بھی کھلی چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، عجیب افراتفری کا عالم ہے، واقعات تو تقریباً ہر روز ہوتے تھے مگر اس دفعہ کوئی بھی معافی کا چانس نہیں لگتا۔ سفید فام غنڈے آئے دن کوئی نہ کوئی افریقن امریکن پھڑکا دیتے ہیں، مٹی پاﺅ، مٹی پاﺅ اور یو ںکیس داخل دفتر ،مگر اس مرتبہ سفید فام پولیس نے جان بوجھ کر افریقن امریکن مار دیا جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہوا۔ دل جوئی نہ کی گئی بلکہ زور سے واقعہ کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ معاملہ بجائے دبنے کے اور کُھل گیا۔ انصاف کیلئے آوازیں بلند کی گئیں مگر کوئی جواب نہیں ملا، بس پھر کیا تھا ،تمام افریقن امریکن باہر نکل آئے، انہوں نے سفید فام قوم پرستوں کو معافی دینے سے انکار کر دیا۔ وہ صرف انصاف کا تقاضا کر رہے تھے، ہمارے صدر محترم بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا فلسفہ مٹی پاﺅ والا کامیاب نہ ہوسکا۔ اب دیکھو پردہ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ کرونا نے بڑی بڑی کمپنیاں تباہ کر دی ہیں، تقریباً چار کروڑ لوگ بےروزگارہو چکے ہیں۔ گھروں میں کھانے کیلئے کُچھ نہیں ہے ،مرتا کیا نا کرتا۔ افریقن امریکن کو ایک زندہ ایشو مل گیا ہے، اب یہ احتجاج کے بہانے توڑ پھوڑ بھی کر رہے ہیں اور لوٹ مار بھی کر رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے صدر محترم نے ہلکا سا اشارہ دیا ہے کہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جائےگی، میرا ماننا یہ ہے کہ ہم فساد دوسرے ملکوں میں سمگل کر دیتے تھے، اس دفعہ ہمیں شاید خمیازہ بھگتنا پڑے، خود ہی سہنا پڑے۔
٭٭٭