پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
ریاست مینی سوٹا کے شہر …. ایپلس میں 46 سالہ سیاہ فام جارج فلائیڈ کا چار سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں جو بیہمانہ قتل 25 مئی کو ہوا ہے اس نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا، پچھلے چھ دنوں سے پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بڑی بڑی دکانوں کو توڑ کر لُوٹ مار کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس مرتبہ یہ مظاہرے فقط سیاہ فام لوگوں کے نہیں بلکہ سفید فاموں کے علاوہ ہر رنگ و نسل کے لوگ بھی جوق در جوق اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ پولیس نیشنل گارڈز اور اسٹیٹ پولیس اپنے ہتھیاروں سے لیس مظاہرین کو مرعوب کرنے میں بُری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ مظاہرین مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے چالیس اہم ترین شہر اس آگ میں لپٹے ہوئے ہیں جبکہ بائیس شہروں میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے لیکن کرفیو کے باوجود مظاہرین سینہ سپر ہیں اور واپس گھروں کو جانے کو تیار نہیں ہیں، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک بھی سراپا احتجاج ہیں۔ جارج فلائیڈ پہلا سیاہ فام نہیں لیکن حالیہ برسوں میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونےوالوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔ اس سال میں اب تک سولہ سیاہ فام لوگوں کو پولیس نے بے وجہ یا معمولی باتوں پر قتل کر کے امریکی سیاہ فام لوگوں میں غم و غصہ بڑھانے میں بے پناہ حد تک اضافہ کیا ہے۔ کینٹکی ریاست میں ایک طبی ٹیکنیشن سیاہ فام خاتون کو فروری میں گھر میں گھس کر پولیس نے گولی مار دی اسی طرح ریاست جارجیا میں ایک افریقی امریکی شخص کو جاگنگ کرتے ہوئے ایک ریٹائرڈ پولیس افسر اور اس کے بیٹے نے بغیر کسی تنازعہ یا جرم کے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ پچیس سالہ شخص سڑک پر تڑپ تڑپ کر مر گیا لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی، پولیس نے دو ماہ تک نہ کوئی مقدمہ درج کیا نہ ہی قاتلوں کو گرفتار کیا، مقتول کے لواحقین چیختے چلاتے رہے ،حالیہ واقعات کے بعد اب جیسا کہ پولیس نے قاتل سفید فام باپ بیٹے کو گرفتار کیا ہے ویسے بھی جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی کرسی سنبھالی ہے ،نسلی تعصب کو ہوا ملی ہے اور سفید فام نسلی تعصب کو تقویت ملی ہے۔ سفید فام نسل پرست دندناتے پھرتے ہیں اور سیاہ فاموں کو انسان تسلیم نہیں کرتے۔ سیاہ فام لوگوں نے ڈھائی سو سال کی غلامی جھیلی ہے جب سفید فام لوگوں نے ان بیچاروں پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ ڈھائے اگر غور کیا جائے تو غلامی کی تاریخ شاہد ہے کہ امریکی سیاہ فام لوگوں نے غلامی کے دور میں جانوروں سے بد تر زندگی گزاری یہاں تک کہ اگر کسی سفید فام کا جانور مر جاتا تھا تو سیاہ فام غلام کو اس جانور کا خیال نہ رکھنے پر گولی مار دی جاتی تھی اور پھر جب 1865ءمیں 13 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی طور پر امریکہ میں غلامی کو خلاف قانون قرار دیے دیا گیا تو بھی سیاہ فام لوگوں سے سفید فام امریکیوں کی نفرت کم نہیں ہوئی انہیں اچھوتوں کے طور پر سمجھا جانے لگا۔ بس الگ سکول، الگ ریسٹورنٹ، الگ سیاہ فام امریکی سفید فام شہریوں کےساتھ مل بیٹھ نہیں سکتے تھے ۔سیاہ فام مرد یا عورت کی شادی سفید فام عورت یا مرد سے شادی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس عمل کو SEGREGERATION کہا جاتا تھا ۔یہ نسلی علیحدگی کا دور ایک نرم غلامی کا دور کہا جا سکتا ہے، آخر کار نوے سال بعد 1954ءمیں امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اسکولوں میں نسلی علیحدگی انسانی اقدار کے منافی ہے اور پھر مارٹن لوتھر کنگ کی انسانی حقوق کی جدوجہد اور کینیڈی خاندان کی ترقی پسند سوچ رنگ لائی اور پھر 1964ءمیں شہری حقوق، 1964ءمیں امریکی پارلیمنٹ نے پاس کیا لیکن اس پر عملدرآمد پھر ایک طویل جدوجہد سے گزری۔ مارٹن لوتھر کنگ اور کینیڈی برادران نے بھی بد قسمتی سے اپنی جانیں گنوا دیں لیکن امریکی تاریخ میں آج بھی زندہ و درخشندہ ہیں۔ آج ہمیں جو سیاہ فام نوجوان راہ چلتے نظر آتا ہے ،اس کی چال اور گفتگو کا انداز ہمیں بڑا عجیب لگتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آباﺅ اجداد سے لے کر آج تک ظلم و زیادتی کے ادوار سے گزارے۔ اس کے نہج کی تلخی اور رویہ میں جارحانہ انداز کا زہر اس کی تاریخ نے اسے آہستہ آہستہ پلایا ہے۔ اس کی محرومی کا سفر کوئی نیا سفر نہیں ،اسے اس کی ماں نے اکیلے دو تین ملازمتیں کر کے بڑے دکھوں اور تکلیفوں سے گزر کر پالا ہے ،ہم سب کو سوچنا چاہئے اور انسانی ہمدردی ہونی چاہئے۔ آج بھی امریکی جیل سیاہ فام لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہر رنگ و نسل میں جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں، کیا سفید فام جرائم نہیں کرتے لیکن سیاہ فام لوگوں کو اپنی جلد کے رنگ کی قیمت اپنے بے گناہ قتل یا گرفتاری سے ادا کرنی پڑتی ہے آج سیاہ فام لوگ آبادی میں 19% اور جیلوں میں 40 فیصد ہیں جبکہ سفید فام آبادی میں 70 فیصد اورجیلوں میں تیس فیصد ہیں۔ چرس کا ایک سگریٹ بھی سیاہ فام کو برسوں تک جیل میں رکھنے کیلئے کافی ہوتا ہے لیکن سفید فام کی منشیات کی فیکٹری بھی چند دن یا ماہ بمشکل جیل میں گزار کر رہائی دلوا دیتی ہے، باقی آئندہ۔
٭٭٭