سردار محمد نصراللہ
کرونا کی تیزیاں بڑھ رہی ہیں، وطن عزیز کے ہر کونے میں اس کے اثرات ہر شہر بڑا ہو یا چھوٹا پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔ اللہ اللہ کر کے نیویارک اپنے گھر پہنچنے کے بندوبست کے آثار نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ ترکش ایئرلائنز نے کنسلیشن کا کوئی نیا حکم ابھی تک صادر نہیں کیا ہے جس کا مطلب میں زندگی رہی تو 12 جون کو اپنے اہلخانہ اور دوستوں سے ملاقات کرونگا۔ تقریباً وطن عزیز کی مٹی پر ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد ذہن میں اُداسی جو دل و دماغ پر بھی گھونسلہ بنائے بیٹھی ہے اور اس میں بھی رنگ برنگی چڑیاں ہر لمحہ یہ پیغام دے رہی ہیں کہ سردار نصر اللہ جہاں مرضی جا بسو لیکن اپنی مٹی کو کبھی نہ بھولنا کہ تمہارے اسلاف یہاں دفن ہیں۔میرے ان چار مہینوں کے قیام کے دوران جن لوگوں نے مجھے تنہائی کا ایک لمحہ بھی محسوس نہیں ہونے دیا ،ان میں میری سب سے بڑی آپا طلعت اور بہنوئی میاں احسان الحق سابق سینیٹر شامل ہیں ۔انہوں نے کورونا دیکھا نہ اس کا خوف، اپنے دولت خانہ کے شاہی دروازہ کُھلے رکھے اور ایک سے ایک لذیذ ڈش، پھلوں اور مٹھائیوں کےساتھ دستر خوان پر سجی ہوتی تھیں ۔ میاں احسان صاحب کے قدموں میں بیٹھ کر زیڈ اے بھٹو کی شخصیت اس کے کردار اور سیاست کو سننے کا اور سمجھنے کا نادر موقع ملا اور اس وقت کی پرائی سیاست حالانکہ میاں صاحب اب تحریک انصاف کے رہنماﺅں میں سے ہیں، میاں صاحب اور ملک معراج خالد پڑوسی بھی تھے اور اس دور کی سیاست کے درخشاں ستارے ان کےساتھ پرانی باتیں یاد کر کے اور ان کےساتھ ٹائم گزار کر بڑا مزا آتا ہے ۔اس بار ہماری قسمت کے کرونا نے جم خانہ کلب کے دروازے اپنے ممبروں اور مہمانوں پر یکساں بند کر دیئے ورنہ وہ اکثر مجھے اپنے ساتھ لے جاتے اور بہت سے بڑے بڑے سیاسی اور صحافتی دوستوں سے ملواتے۔ اللہ میاں صاحب اور آپا کو سلامت رکھے کہ میرے ننھیال کا مرکز وہ ہے اور سب سے وہیں پر ملاقات ہوتی ہے۔ میری چھوٹی خالہ کے صاحبزادے شیخ عادل عُرف ہنی جو مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح بہت عزیز ہے جیسے ہی میرا قدم لاہور میں پڑتا ہے اس کی محبت کے دروازے کُھل جاتے ہیں ایک دو بڑے گرینڈ کھانے کرتے ہیں اور تمام ننھیال کو جمع کر کے اپنے والد اور والدہ کی روایات کو زندہ کرتے ہیں، ان کی بیگم ،بھابی سمیرا اور بچے بڑی خوش دلی سے اپنے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں اور مجھ جیسے چھوٹے شخص کو وی وی آئی پی کا درجہ دیتے ہیں۔ شیخ عادل کی مہربانیوں میں سے ایک یہ سب سے بڑی مہربانی ہوتی ہے کہ وہ مجھے میرے سب سے بڑے بھائی چودھری طاہر اکرام سے ملاقات کرواتے ہیں آپا طلعت کے بعد خاندان میں ان کا درجہ ہے میں ایمن آباد میں ان کی انگلی پکڑ کر جوان ہوا ہوں، اس بار کرونا کی وجہ سے قربت تو زیادہ نہیں ملی لیکن واٹس اپ اور فیس بک پر ان کے پیار میں کمی نہیں آئی۔ لیڈر شپ کوالٹی ہماری فیملی میں دوڑتی ہے، جیسے رگوں میں خون، میری آپا ریحانہ بیک وقت لیڈیز کلب جو کہ ڈیفنس کا سب سے بڑا لیڈیز کلب ہے کی صدر ہیں اور اس کے علاوہ خواتین کی ویلفیئر کیلئے دن رات کام کرتی ہیں، ان کے شوہر میرے بہنوئی بریگیڈیئر ادریس کا حالیہ انتقال ہوا ہے انہوں نے بیوگی کو اپنا زیور نہیں بنایا بلکہ غریب ، نادار خواتین اور بچوں کی تنگدستی اور غربت کو دور کرنے کو اپنا زیور بنایا، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سوشل ورک اور سیاست ہماری گھٹی میں ہے۔
ان چار مہینوں میں قسم خدا کی اپنے آپ کو ہاﺅس اریسٹ ہی سمجھا۔ بھلا ہو میری بڑی ہمشیرہ یاسمین ظہور لالیکا کا کہ ایک دن زبردستی گاڑی بھیج کر بہاول نگر بلا لیا ان کی مہمان نوازی کا ذکر میں پہلے کالموں میں کر چکا ہوں ،اس بار ننھیال اور ددھیال کے ان مہربانوں کا ذکر مقصود ہے جنہوں نے کرونا میں میرا خیال رکھا۔ اپنے ددھیال والوں کا تو میں بے بی برادر ہوں اور ایک اور وجہ جو وہ مجھے عزیز رکھتے ہیں کہ میں ان کے سب سے پیارے ماموں سردار ظفر اللہ کا بیٹا ہوں یوں تو میری ڈیڑھ درجن سے زیادہ کزن سسٹرز ہیں اور اس وقت صرف آپا گُلو نیویارک والے میرے دوست جانتے ہیں ،مرحوم شیخ سلیم اعجاز کو ان کی بڑی ہمشیرہ ہیں، انہوں نے کوئی دن ایسا نہیں گزارا جب فون کر کے میرا حال نہیں پوچھااور میری ماں جیسی بھابھی عارفہ جنہوں نے اپنے بچوں کی طرح مجھے شفقت اور پیار سے نوازا۔ فون پر میری خیریت دریافت کرتی تھیں ۔اللہ ان سب کو سلامت رکھے کہ بڑے بہن بھائیوں کا خواہ وہ ننھیال ہو یا ددھیال ان کا سایہ¿ فگن ضروری ہے۔
سیاست تو ہوتی رہتی ہے ،ہوتی رہے گی بحث مباحثے دوستوں کےساتھ جاری رہتے ہیں، آج میں صرف اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کی مہمان نوازیوں اور محبتوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اکثر جب لکھنے بیٹھتا ہو ںتو کوئی نہ کوئی نام بھول جاتا ہوں اور ایسا ہی ہونے لگا تھا کہ میری طرح کینیڈا سے آیا ہوا میرا ایک اور کزن چودھری جاوید سردار فرام ایمن آباد، کا نام بھولنے لگا تھا لیکن اللہ کا شکرہے کہ بروقت یاد آگیا انہوں نے تو مجھے کچھ نہیں کہنا تھا لیکن میرا اپنا ضمیر مجھے ملامت کرتا کہ چودھری صاحب اور بیگم صاحبہ فون پر اور فیس بک پر میرا حال اور چال پوچھتے اور تسلی دیتے کہ فکر مت کرو ہم بھی تمہارے ساتھ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی گھروں میں ہاﺅس اریسٹ ہیں ،میں اکثر ان کے سیاسی تجزیوں سے استفادہ کرتا رہتا ہوں اور وہ بے باک انداز میں اپنے تبصروں سے مستفید کرتے ہیں۔
اس بار میرے دوستوں میں حضرت عطاءاللہ شاہ بخاری کے نواسے حضرت سلطان بخاری صاحب کا اضافہ ہوا ہے حالانکہ رہنے میں ان کا تعلق ان پیروں میں سے ہے جن کے بارے میرے مرشد علامہ اقبالؒ نے کہا ہے!
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
مجھ کو تو میسر نہیںمٹی کا دیا بھی
لیکن قسم اللہ کی انہوں نے میرے حجرے کو بھی چراغ شام سے روشن رکھا، ان سے اتنی عقیدت ہے کہ جب وہ تشریف لاتے ہیں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں عطاءاللہ شاہ بخاری کے پہلو میں بیٹھا ہوں۔ میرے نہایت ہی دو محترم ساتھی راشد لودھی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ توصیف بھٹی ایڈووکیٹ لارڈ ملی ایڈووکیٹ، میری تنہائیوں کو دور کرنے عرفان سیمی کی خدمت کا سہارا لیتے پانی رے پانی تیرا رنگ کیا جس میں ملا دوں لگا اس جیسا سوڈا واٹر میں ملا کر پلاتے تو ایزام غالب یاد آنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ایک دوست علامہ تنویر قیصر شاہد چیف آڈیٹر ایکسپریس اسلام آباد جنہوں نے ڈیلی فون کرنے کی روایت قائم رکھی خواہ میں نیویارک میں ہوں یا پاکستان میں کوئی دن ایسا نہیں گیا کہ ہماری گپ شپ نہیں ہوئی۔ علامہ صاحب عصر حاضر کے میرے بہترین راہنما ہیں وہ تکرار بھی کرتے ہیں، تنقید بھی کرتے ہیں ،ایجوکیٹ بھی کرتے ہیں۔ علامہ صاحب خود ایک پانچ سو صفحوں کی کتاب ہیں ،لکھنے بیٹھوں تو کئی دفتر ختم ہو جائیں گے ،اس بار تو امان اللہ خان، کئی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے سرپرست آج کلان کی فوجی خدمت کرنے والا جریدہ عسکر نیوز بڑا ہٹ جا رہا ہے ۔دوست ان کو عصر حاضر کا شورش کہتے ہیں ،ان کو سیاست دانوں کو ڈنڈے مارنے کا فن خُوب آتا ہے تقریباً 80 کلو میٹر دور میری دلجوئی کیلئے آتے ہیں اور آخر میں میرے چھوٹے بھائی خان بہادر گوہر علی خان کہ ان کا طرہ¿ امتیاز یہ ہے کہ ان کی گاڑی پانی سے نہیں چلتی۔
٭٭٭