پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
کئی سالوں سے مروجہ قانون کے مطابق کوئی دوہری شہریت کے حامل شخص کو حکومت میں اہم عہدہ نہیں دیا جا سکتا، حتیٰ کہ کسی وزارت میں سیکرٹری کا عہدہ بھی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اہم عہدوں پر فائز اشخاص اہم فائلوں اور معلومات تک رسائی رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ شخص اگر کسی اور ملک کا شہری ہے یا اس میں مستقل سکونت اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ دو کشتیوں کا سوار ہے، پاکستان میں وہ شخص غلط ملط کر کے دوسرے ملک چلا جائےگا۔ جن لوگوں کو پاکستان کی خدمت کرنے کا زیادہ شوق ہے وہ اپنی شہریت جو دوسرے ملک سے ملی ہوئی ہے اسے ترک کر کے فقط پاکستان کی شہریت رکھیں اور پھر بڑے سے بڑا عہدہ رکھیں کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ پچھلی حکومتوں میں شامل اقتدار دوہری شہریت والوں پر تو عمران خان نے بڑی تنقید کی تھی لیکن خیر وہ تو ہرپہلو حکمرانی پر حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان کا موقف کچھ اور تھا اب وہ اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ دوسرے سیاستدانوں کی طرف سے ایسی باتیں تو متوقع تھیں لیکن تبدیلی کا پرچم بلند کرنے اور بلند و بالا دعوے کرنےوالے کپتان سے عوام کو ہر گز یہ توقع نہیں تھی۔ شاید اس طرح خان صاحب عوام سے اس بات کا انتقام لے رہے ہیں جنہوں نے اکثریت سے نہیں جتوایا، اب وہ ان بیرونی موقع پرست فصلی سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں آئیے قارئین اکرام دیکھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں؟
1۔ زلفی بخاری، مشیر خاص اوورسیز پاکستانی
2۔ شہزاد قاسم مشیر خاص، پاور ڈویژن
3۔ ندیم بابر مشیر خاص برائے پیٹرولیم
4۔ شہباز گِل۔ مشیر خاص برائے سیاسی امور
5۔ ندیم افضل چن مشیر برائے پارلیمانی روابط
6۔ تانیہ ادرس مشیر خاص برائے ڈیجیٹل پاکستان
ان میں سوائے ایک کے باقی پاکستانی سیاست میں نو وارد ہیں البتہ ندیم افضل چن (گوندل) صاحب پیپلزپارٹی کے جیالے اور پاکستانی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ آج کل کینیڈا کے مستقل شہری ہیں اور ان کے تحریک انصاف کے حکومت میں شمولیت حیران کن ہے۔ زلفی بخاری برطانیہ کی شہریت رکھنے کےساتھ پاکستان کی شہریت کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں۔ موصوف ارب پتی ہیں یعنی برطانوی پاﺅنڈز میں ارب پتی ہیں اور اس کےساتھ پاکستان میں بھی کئی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ اسی طرح شہزاد قاسم بھی امریکی کروڑ پتی ہیں جن کی پانچ مہنگی جائیدادیں لاہور میں بھی ہیں یہ وہ تمام اثاثے ہیں جو امریکہ میں جن کی مالیت کروڑوں ڈالروں میں ہے۔ اس کے بعد ذکر کرتے ہیں ندیم بابر جنہیں پیٹرولیم کا مشیر خاص مقرر کیا گیا ہے ان صاحب کا تعلق اورئینٹ گروپ آف کمپنیز سے ہے جبکہ اسی بڑی کمپنی کی ملکیت اورئینٹ نجی پاور پلانٹ بھی ندیم بابر اس کمپنی میں شیئر ہولڈر ہیں۔ اسی کمپنی میں سوئی نادرن گیس کا مقدمہ عدالتوں میں چل رہا ہے جس میں اورئینٹ پاور ڈفالٹر ثابت ہو گیا ہے۔ سوئی نادرن گیس کا اسے کہتے ہیں ۔ کنفلیکٹ آف انٹریسٹ یعنی مفادات کا ٹکراو¿۔ جس کے متعلق ہمارے خان صاحب اقتدار سے پہلے کافی چیخ چیخ کر تقاریر کرتے تھے آج انہوں نے ندیم بابر کو پیٹرولیم کا مشیر جس کا مملکت وزیر کے برابر عہدہ ہے ؛ اپنے ہی اصول کو پاش پاش کر دیا ہے ۔ شہباز گِل بھی امریکی حیوانی ڈاکٹر ہیں جنہیں وائلڈ لائف ڈاکٹر کہا جاتا ہے کیونکہ عمران خان اپنے مخالفین کو جنگلی جانور سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے شہباز گِل صاحب کو امریکہ سے دریافت کر کے اپنا مشیر برائے سیاسی امور مقرر کر دیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں کوئی پاکستانی سیاستدان ایسا نہیں ملا کہ جنہیں سیاسی امور کا محکمہ دیا جا سکتا ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں تانیہ ادرس کی، یہ محترمہ گُوگل کمپنی میں ایک عرصہ سے کام کر رہی تھیں بلا شک و شبہ اپنے کام میں یعنی آئی ٹی میں ماہر سمجھی جاتی ہیں۔ ڈیجیٹل پاکستان کیلئے وزیراعظم کی مشیر خاص ہیں۔ لیکن محترمہ تانیہ صاحبہ ایک نان پرافٹ ادارے ڈیجیٹل پاکستان فاﺅنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر جہانگیر ترین کےساتھ بطور ممبر بھی موجود ہیں۔ جس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مشیران کی یہ کھیپ بھی جہانگیر ترین سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ٹیکنو کریٹس کو لایا جائے لیکن کیا پاکستان میں بہترین ٹیکنو کریٹ موجود نہیں انہیں امپورٹ کرنا ضروری تھا، کیا، آخر میں عادت جو ہو گئی ہے امپورٹ کرنے کی چینی امپورٹ، گندم امپورٹ، تیل امپورٹ، بجلی امپورٹ، اب ماہرین بھی امپورٹ۔ مفادات کا ٹکراﺅ عمران خان کی حکومت کو نہ لے ڈوبے !!!
٭٭٭