واشنگٹن (پاکستان نیوز) ایک رپورٹ کے مطابق سائنس اور انجینئرنگ میں چین، امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ چینی طلباء نے 2020میں1.38ملین انجینئرنگ بیچلر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ چین کی فوجی اور ایرواسپیس کی کوششیں اس کے ذہین ترین گریجویٹس کے لئے پسندیدہ مقام ہیں۔ چین ہر سال امریکہ کے مقابلے میںچھ گنا زیادہ انجینئرز گریجویٹ پیدا کرتا ہے اور اس کے انڈر گریجویٹس کا ایک تہائی اس شعبے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ چین میں حکومت کے لئے کام کرنا اعزاز سمجھا جاتا ہے، چینی فوجی اور ایرواسپیس انجیئرنگ کو اعلیٰ کارکردگی والے سپر کمپیوٹرز تک رسائی حاصل ہے اور وہ جدید ترین سیمی کنڈکٹر مصنوعات تک رسائی کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجیز پر کام کررہے ہیں، چینی حکومت کے لئے معروف ٹیکنالوجیز کے ساتھ کام کرنے کے بعد وہ نجی شعبے میں بھی ملازمتیں پیدا کررہے ہیں۔ چین، امریکی بحری جہازوں کے محدود میزائل شکن دفاع کو متعدد حملوں سے آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔ چین کے پاس 1000 سے زیادہ جدید انٹرسیپٹر طیارے اور ساٹھ جدید ڈیزل الیکٹرک آبدوزیں بھی ہیں۔ وہ طاقتور لیزر تیار کررہا ہے جو امریکی مواصلاتی سیٹلائٹ کو تباہ کرسکتا ہے اور جہازوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اس میں ہائپرویلسٹی گلائیڈ گاڑیاں ہیں چین5جی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کوانٹم کمیونیکیشنز میں عالمی رہنما بن رہا ہے چین اپنا خلائی سٹیشن بھی بنا رہا ہے اور 5جی کمیونیکیشن سیٹلائٹ لانچ کررہا ہے۔ چین کا ایروا سپیس اور ملٹری سیکٹر انتہائی باصلاحیت انجینئروں کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے چین کے مقابلے میں امریکی فوجی صنعت اعلی کمپیوٹنگ ٹیلنٹ کی خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے وہ جنون امریکی نوجوانوں میں نہیں پایا جاتا جو چینیوں میں ہے۔ امریکہ جو نئے دفاعی منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں ان میں ابھی بھی زیادہ تر پرانی ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ نئے ہارڈویئر کے لئے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی میں بھی امریکہ 20سال پیچھے ہے کیونکہ جو انجینئرز پہلے سے ہی ملٹری اور ایرواسپیس ایکو سسٹم میں ملازمی ہیں وہ اے ون ٹیکنالوجی کی جدید ترین نسل میں ہنر مند نہیں ہیں۔ یہ انکشاف بھی حیران کن ہے کہ امریکی فوج جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل پر زیادہ تر انحصار کرتی ہے۔ چین کو فرسودہ نظام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ امریکہ کی طرح پرانے سافٹ ویئر پر تکیہ نہیں کرتا بلکہ وہ جدید سے جدید تر کی تلاش میں رہتا ہے۔2025 اور2030کے درمیان چینی سافٹ ویئر امریکہ سے بہت آگے نکل جائے گا خاص طور پر اے ون ٹیکنالوجی میں۔