پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
حسینیت ظالم وجابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کو کہتے ہیں آجکل کے دور میں جب ظالم واستعداد عالمی سطح پر اقتدار کے ایوانوں میں عام ہوگیا ہے اور وقت کے یزیدوں نے حق وسچ کی آوازوں کو دبانے کیلئے اپنے اختیارات کے استعمال کو اپنا حق حکمرانی سمجھ رکھا ہے تو حسین جرات دور حاضر کی ضرورت بن کے ابھر رہی ہے۔عوام بدعنوانی، جھوٹ اور حق تلفی اور غربت کی چکی میں گھن کی طرح پیسی جارہی ہے۔اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا بھی جرم سمجھا جانے لگا ہے۔امیر ترین ریاستیں اپنا ایک ایسا اتحاد جوڑنے میں مصروف ہیں جس تہذیب وثفافت نسل ومذہب کو بالائے طاق رکھ کر آزادی اور حق خودارادیت کو کچلنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔فلسطین، کشمیر ومانمار میں بیدردی سے مسلمانوں کو کچلا گیا لیکن عرب بادشاہوں نے مدد کرنے کے بجائے اپنا منہ موڑ لیا۔یمن آجکل سعودی مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے۔بچے بھوک وبیماری سے بلک رہے ہیں خواتین بیوہ ہو کر چیخ وپکار سے انسانیت کو جگانے کی کوشش کر رہی ہیں۔یہاں تک کے اقوام متحدہ اور یونیسیف کو خوراک اور ادویات پہنچانے سے روک دیا گیا۔بھارت میں بھی مسلمانوں کو لاٹھیاں مار مار کر جلایا جارہا ہے یارومددگار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔دوسرے ممالک میں بھی رنگ ونسل کی بنیاد پر پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل اب روزانہ کا معمول ہوگیا ہے۔ انسانیت ہار رہی ہے بے حسی اور بے رحمی کا دور دوران ہے۔پچھلے دنوں میں امریکہ میں جارج فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔انسانی ضمیر کو جھنجوڑ دیا۔لیکن دنیا میں جو اکثر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کی بروقت تصویر کشی بذریعہ ویڈیو کے نہیں ہوتی نہ ہی ایسا کرنا ممکن ہے ان کے لیے آواز اٹھانا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔آج کے دور میں اسے لوگوں کیلئے انسانی حقوق کے علمبردار اور اظہار رائے کی آزادی کے متوالوں پر ہے۔بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اور کچھ نہیں کرسکتے تو اپنا احتجاج اپنی آواز سے اپنے قلم وتحریر سے حق وسچ کی آواز بلند کرتے رہیں۔آج کے میڈیا پر بھی عالمی طور پر مشکل وقت آگیا ہے لیکن خصوصی طور پر پاکستان میں صحافیوں کا گزر بسر مشکل ہوگیا ہے ،صحافیوں کا اغوائ، تشدد اب روزانہ کا معمول بنتا جارہا ہے پچھلے دنوں جب صحافی مطیع اللہ جان کے اغواءکی ویڈیو سرعام دکھائی گئی تو عوام کے شدید ردعمل کے باعث اسے سرکاری اغواءکاروں نے فوراً رہا کردیا لیکن بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انور جان کو ایک صوبائی وزیر شاہجہان کیتھران نے انکی بدعنوانی کی خبر چھاپنے کے جرم پر کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کروا دیا تو کسی نے آواز نہیں اٹھائی ،سویڈن میں پناہ لینے والے صحافی سجاد حسین کو ارباب اختیار نے سویڈن میں بھی زندہ رہنے نہیں دیا ،مشکوک حالات میں مارے جانے والے صحافی سجاد حسین کے قتل کی تحقیقات سویڈیش پولیس نے شروع کر رکھی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر سویڈن کے تحقیقاتی اداروں کو شواہد ملے تو وہ اپنے تحقیقاتی دائر کار کو پاکستان لگ لے جانے سے دریغ نہیں کرینگے۔روسی حکومت جس طرح اپنے مخالفوں کو امریکہ اور یورپ میں ہلاک کرنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں اسی طرح پچھلے برس استنبول میں واقع سعودی سفارتخانے میں صحافی جمال خشوگی کا قتل اس بات کا عندیہ دیتا ہے آج کے یزیدوں کا اثر اس طرح اپنے ممالک کی حدود تک محدود نہیں۔ راقم سمیت اور کئی پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے لکھاریوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیںلیکن وہ طاقتور لوگ ہیں بھول گئے ہیں ،میرے اللہ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے سامنے میرا سر ہر وقت سرنگوں(جھکا ہوا) ہوگا۔TRUTH TO POWERبیشک مشکل کام ہے لیکن جن پر یہ کام کرنا ہے اسے حق کا علم بلند کرکے اپنا کام کر گزرنا چاہئے ،جان بھی چلی جائے لیکن ہمت پیار کر ڈر کر نہیں جینا بقول فیض احمد فیض کے:۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے۔
اس جان کی کوئی بات نہیں ہے جان تو آنی جانی ہے۔