2016ءسے 2020ءکے امریکی انتخابات!!!

0
167
کوثر جاوید
کوثر جاوید

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

موجودہ دور میں دنیا میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جوں جوں ماڈرن ٹیکنالوجی آگے بڑھ ر ہی ہے اس کےساتھ ساتھ لوگوں کے رویوں اور آگاہی میں بھی تبدیلی رونما ہو رہی ہے، مادیت پرستی بڑھ رہی ہے اور انسانی ہمدردی اور انصاف میں کمی واقع ہو رہی ہے، نفسا نفسی کے اس دور میں بھی جس جس ملک میں اچھے رہنما اور بروقت فیصلے کرنےوالے حکمران موجود ہیں، اس ملک اور قوم کی انفرادیت محسوس کر سکتے ہیں، مسلم ممالک کی اکثریت اپنے مذہبی اور انسانی خدمت اور حقوق کے فرائض کو سمجھنے کی بجائے مادی مسائل حل کرنے اور اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی جدوجہد میں ہیں ۔امریکہ میں عام عوام کیلئے وہ مسائل نہیں جن کا دوسری دنیا میں اکثریت عوام کو سامنا ہے، امریکہ میں دو سیاسی پارٹیاں ہیں جو آپس میں سیاسی اور حکومتی اختلافات کے باوجود کوئی ایسا کام نہیں کرتیں جو مفاد عامہ کے خلاف ہو اور وہ معاملات بھی چھیڑتے جن سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچے، یہاں کا بہترین سیاسی سسٹم بہترین تعلیمی سسٹم ،بہترین ہیلتھ سسٹم، بہترین ریٹائرمنٹ سسٹم، بہترین آب و ہوا، عدالتی نظام اور خالص خوراک دوسرے ممالک کے لوگوں کو خوش آمدید کرنے ،بہترین ٹیکس سسٹم یعنی جس بھی شعبہ یا ادارے کی آپ کو کبھی بھی مایوسی نہ ہوگی۔ انہی بنیادوں کی وجہ سے امریکہ دنیا پر حکومت کر رہا ہے، انتخابی نظام بہترین ہر دو سال کے بعد کانگریس اراکین انتخابات چھ سال بعد سینیٹ کے انتخابات اور ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات، براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہوتے ہیں۔
امریکہ میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں اور جن جن ممالک سے آئے ہیں وہ ہر الیکشن کے موقع پر منظم طریقے سے اپنی اپنی کمیونٹیز اورممالک کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور انتخابی امیدواروں کےساتھ روابط رکھتے ہیں اور خوبصورت انتخابی سسٹم میں ووٹوں اور فنڈز کے ذریعے ایک حکمت عملی کیساتھ شرکت میں انڈیا، بنگلہ دیش، یورپ، مڈل ایسٹ، لاطینی، سیاہ فام ،سفید فام مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ منظم ایجنڈے کےساتھ انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
2016ءکے امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات زیادہ نہ تھے جو سروے کئے گئے اور لوگوں کا رحجان نظر آرہا تھا وہ ہیلری کلنٹن کے حق میں جاتا تھا لیکن الیکٹورل ووٹ کی وجہ سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو گئے، اپنی انتخابی مہم میں جو وعدے اپنی قوم سے کئے ایک ایک کر کے ہی پورے کئے ۔کسی بھی رہنما کا امتحان مشکل وقت میں ہوتا ہے، ان حالیہ چار سالوں میں کرونا وائرس سب سے بڑا بحران تھا لیکن آیا جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیکل سپلائز جاری رکھیں، فوڈ سپلائیز کی بحالی جاری رکھی لوگوں کو گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر ہفتہ وار دیئے اور جس جس ریاست میں مظاہرے اور مشکلات پیدا ہوئیں وہاں خود روزانہ کی بنیاد پر معاملات ہینڈل کئے اور کر رہے ہیں یہی کامیاب لیڈر کی نشانی ہے، انتخابات سے قبل امریکہ میں دونوں پارٹیاں اپنا اپناکنونشن منعقد کرتی ہیں جس کا مقصد اپنا ایجنڈا ،حمایت اور کارکردگی بتانا ہوتا ہے۔ 2016ءکے انتخابات میں دونوں پارٹیوں کے کنونشنز میں امریکی مسلمانوں کی نمائندگی پاکستانیوں نے کی۔ ڈیمو کریٹک پارٹی میں خضر خاں اور ریپبلکن پارٹی میں ساجد تارڑ دونوں شخصیات کا تعلق گوجرانوالہ ڈویژن سے ہے ،دونوں ہی قانون کے شعبے سے وابستہ ہیں ،خاص طور پر خضر خاں وکالت کے شعبے میں ہیں اور ساجد تارڑ کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح ان دونوں شخصیات کو اتنا بڑا موقع ملا ان چار سالوں میں پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کےلئے کارنامے انجام دیتے، کوئی سیاسی تربیت کا اہتمام کرتے ،سیاسی سسٹم میں پاکستانیوں کو شامل کرتے، خاص طور پر ساجد تارڑ جو کمیونٹی میں زیادہ متحرک ہیں پاکستانی صحافیوں میں بڑے مقبول ہیں ہر جھوٹے سچے صحافی کو برابری کا درجہ دیتے ہیں ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں وہ ریپلکن پارٹی کے پلیٹ فارم پر ہیں ان کو ان چار سالوں میں معرکے انجام دینے کی ضرورت تھی، وہ مسلم فار ٹرمپ کے رہنما بھی کہلاتے ہیں حالیہ 2020ءمیں دونوں پارٹیوں کے کنونشز میں یہ دونوں شخصیات کہیں نظر نہیں آئیں اور نہ ہی خطاب کا موقع مل سکا کیپیٹل ہل پر بھی کوئی پاکستانی رجسٹرڈ نہیں ہے زبانی کلامی ہے لیکن اس میں بھی کئی اراکین کانگریس اور سینیٹر ایسے ہیں جو انڈین کاکس کے بھی ممبر ہیں ہمیں جائزہ یہ لینا ہے پاکستانی امریکن ہونے کی حیثیت سے جتنا بڑا مقام گزشتہ دونوں کنونشنز میں پاکستانیوں کو بلانے ،اس کو برقرار رکھنے میں کیوں ناکام رہے اور اب 2020ءمیں کیا حکمت عملی ہے اور کون کون پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کر رہا ہے یا زبانی جمع خرچ ہی چل رہا ہے۔ 2020ءانتخابات امریکی تاریخ میں بڑے اہم ہیں ابھی چند ماہ باقی ہیں تھوڑی کوشش اور جدوجہد سے ہم سنجیدگی سے حصہ لے کر نہ صرف یہاں مقام بنا سکتے ہیں بلکہ پاکستان امریکہ تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here