سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! کورونائی وبا کی وجہ سے ڈیموکریٹ پارٹی کے کنونشن میں وہ زور شور نہیں تھا ا±س کی وجہ کہ کنونشن ورچوئیل تھا راقم 1980 سے امریکن الیکشن ٹی وی پر دیکھ رہا ہے اور میرا پہلا الیکشن جمی کارٹر اور ریگن کے درمیان تھا اپنے نیو یارک میں 40 سالہ قیام کے دوران امریکہ کے جیّد سیاست دانوں کے الیکشن نظر سے گزرے امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن کے امیدواروں کے کنونشن بڑے شوق سے دیکھتا تھا اور ان میں امیدواروں کے درمیان ہونے والی ڈبیٹ بھی بڑے اہتمام سے سنتا تھا کہ سیاست میرا پیشن (passion)ہے کہ میری رگوں میں سیاست دوڑتی، چیختی ، چلاتی اور شور مچاتی ہے ۔ میری زندگی کا سب سے پہلا الیکشن جو میں نے مادرِ وطن پاکستان میں 10 سال کی عمر میں دیکھا وہ مادرِ ملت فاطمہ جناح اور پہلے مارشل لا ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے درمیان تھا جس میں مجھے یہ اعزاز حاصل رہا کہ میں نے مادرِ ملت کے اشتہار اپنے ننھے ہاتھوں سے لاہور کی سڑکوں پر چسپاں کئے اور میرے والد مرحوم سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ کو فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ ہونے کا شرف رہا بظاہر تو جنرل الیکشن جیت گیا لیکن ملک الیکشن ہار گیا اور تاریخ بتاتی ہے کہ مادرِ ملت کو ہرانے میں امریکن سی آی اے کا بھی ہاتھ شامل تھا خیر یہ جملہ معترزہ تھا اصل میں تو امریکن الیکشن کے بارے اپنے تاثرات درج کرنا ہیں۔قارئین وطن! کمیلا ہیرس کی تقریر سنی اس کا ایک ایک لفظ میری سوچ اور فکر میں درج ہو رہا تھا اور اس روز گارِ وطن کی خوبیاں کہ اپنے دامن میں بیرونی ملکوں کے لئیے جبر اور تشدد چھپانے کے باوجود اپنے ملک کے انتخابی نظام کو کتنا خوبصورت بنایا ہوا ہے کہ ایک عورت ہندوستان کی ریاست کیرالہ سے آئی اعلیٰ تعلیم کے لئے اور یہاں ایک جمیکن سیاہ فام سے شادی کرتی ہے جس کے نتیجہ میں ایک بچی پیدا ہوتی ہے جس کے مقدر میں کاتبِ تقدیرممکنہ امریکہ کے نائب صدر ہونے کا اعزاز لکھتا ہے اور وہ شکست و فتح سے بے نیاز ہو کر اس عہدے کو قبول کرتی ہے ۔ کمالہ جیسے واقعات اس سے پہلے بھی ہو چکے ہیں کہ عام سی زندگی سے اٹھنے والے امریکہ کے صدر بنے بل کلنٹن ، اوباما ریگن وغیرہ وغیرہ لیکن ایک سیاہ فارم خاتون کو یہ پہلا چانس ہے ۔ خدارا جب ہم اپنے مادرِ وطن کی جانب دیکھتے ہیں تو اللہ کی پناہ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں تو ہم زرداری، نواز جیسے نچلے درجے کے لوگوں کو پرائیم منسٹر اور مملکت کے صدر کے عہدوں پرفائیز کرتے ہیں ۔ اس ملک میں اچھے برے سب ہی لوگ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوئے لیکن عوام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کہ نیک صالحہ ایماندار اور قابل شخص ان کے اعلی عہدوں پر کام کریں ۔ کمالہ ہیریسن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ریاست کیلیفورنیا کی ڈپٹی اٹارنی جرنل اور اٹارنی جرنل رہی ہے اس نے سینیٹ میں عوامی فلاوبہبود کے لئے بہت سے بل پاس کروائے اور خاص طور پر نسل پرستی کے خلاف بڑا کام کیا ہے کاش ہم بھی اپنے امور مملکت میں ہیریسن جیسے قابل لوگوں کو آگے لے کر آئیں ۔
قارئین وطن! امریکی سیاسی جماعتوں کا رول صرف اور صرف اندرونی معاملات تک ہوتا ہے ان کی اپنی ذہانت کا آوٹ پ±ٹ ضرور ہوتا ہے لیکن اصل میں نیشنل سکیورٹی ، پنٹاگون، اور سی آئی اے ہی ترتیب دیتی ہے ہم لوگوں کو کبھی ڈیموکریٹ اور کبھی ریپبلیکن اچھے لگتے ہیں لیکن انہونے وہی کرنا ہے جو اوپر درج تین ادارے ان کو بتاتے ہیں ہم پاکستانیوں کو اپنا ووٹ اپنے اپنے علاقے کی ضرورت کے تحت ڈالنا چاہئے نہ کہ یہاں پر کسی ڈاکٹر یا بزنس مین کے کہنے پر ووٹ ڈالنا چاہئے جو اپنی دولت کے بل بوتے پر کانگریس مین سینیٹر گورنر کے دوست بن کر صرف اپنے ڈرائنگ روم میں ان کے ساتھ تصویر کھنچوا کر لٹکاتے ہیں اور اس سے زیادہ ان کا کوئی رول نہیں ہوتا ۔
قارئین وطن! بعض دفعہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصییت کی وجہ سے الیکشن اہم ہو جاتا ہے کہ ایسی ے شخص کی اپنی سوچ اور پالیسیاں عوام اور ملک کے لئے بہتر نہیں ہوتی ہیں لہٰذزا ایسے الیکشن میں جوق در جوق حصہ لینا چاہئے کے ان لوگوں کی وجہ سے عوام الناس کو بڑا نقصان پہنچتا ہے پاکستان گروپ کو ایک بات کا دھیان رکھنا چاہئے اپنے مادرِ وطن کے حولے سے کہ امریکن صدارت کے امیدوار کشمیر پر اور پاکستان پر اپنی کیا سوچ رکھتے ہیں الیکشن کے دوران یہودی،ہندو ، اور دوسری قومیں بڑی متحرک ہو جاتی ہیں ہم پاکستانیوں کو بھی اپنا انٹرسٹ واچ کر نا چاہئے کہ اب ہم بھی اس گلوبل ولیج کا حصہ ہیں ۔ قارئین وطن!میرے نہایت ہی مہربان دوست جن کو میں بیمہ فروشی کا کنگ مانتا ہوں کہ وہ گھروں کے چراغ بجھنے نہیں دیتے ان کا کہنا ہے کہ کالم کے اختتام پر اپنا نام درج کیا کرو ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے۔ سردار محمد نصر اللہ
٭٭٭