پرانی کہاوت بھی ہے سنتے آرہے ہیں کہ جو گڑھا کسی اور کے لیے کھودا جاتا ہے اس میں گڑھا کھودنے والا گرتا ہے لیکن ہمارے سیانے سمجھتے نہیں ہیں اور بار بار گڑھے کھودتے رہتے ہیں اور ان میں گرتے رہتے ہیں کم ازکم اپنے تجربے سے تو سیکھنا چاہئے لیکن نہیں ہمارے سیانے اپنا وہی مشغلہ دھراتے رہتے ہیں اور پرانی غلطیاں بار بار کرتے ہیں جس عفریت کو تمام وقت دودھ پلا کر بڑھا یا گیا، اب وہ برُی طرح اپنے گلے پڑ گئی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔انتہا پسندی کی ہے عفریت کے کئی منہ ہیں۔چاروں طرف سے پاکستانی معاشرے پر حملہ آور ہے اور اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ اسے اب واپس بوتل میں بند بھی نہیں کیاجا سکتا ہے۔متحدہ اور سپاہ پر نکیل ڈال دی جائے۔اس سے پہلے کبھی نہیں سنا کہ پنجاب پولیس کے سینکڑوں اہلکار اغواء کیے گئے ہوں اور خیموں کی تعداد بھی ہزاروں تک ہوگئی ہے۔ملک کے شیخ چلیوں نے تو انتہا کردی ہے۔اپنے ہی خلاف منصوبہ بنائے جارہے ہیں جن غلطیوں کو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہو وہ نہ صرف کئے جارہے ہیں بلکہ دھرائے جارہے ہیں عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی اور بدترین حکمرانی کے ہاتھوں پاگل ہوا جارہا ہے اب اسے مکمل بدترین بدامنی اور قتل وغارتگری کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔کل تک لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اپنی سیاست چمکانے والی جماعت اب اپنے لگائے ہوئے پودے سے پریشان ہے۔بین الاقوامی طور پر بھی پاکستان کی جتنی بدنامی ہوئی ہے اور پاکستانن کے دشمنوں کے ہاتھ میں ایک اور معاملہ تھما دیا گیا ہے جسے آنے والے دنوں میں اچھالا جاتا رہے گااور بیانگ دھل کہا جائے گا کہ ہم نہ کہتے تھے انتہا پسند ملک ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں۔پاکستان کے علاوہ بھی کئی مسلمان ممالک ہیں کسی پے انتہا پسندی کا الزام نہیں ہے کیا سعودی عرب نے ایران، ترکی ملیشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش مسلمان ملک نہیں ہیں لیکن کوئی بھی ایسا ملک نہیں جس پر انتہا پسندی کا الزام اتنی بار لگ چکا ہو۔جتنا پاکستان پر، سیانے جواباً کہیں گے آپ سمجھتے کیوں نہیں اسلئے کہ ہم واحد اسلامی ملک ہیں جو ایٹمی قوت کا مالک ہے ارے بھئی! ہم نے بھی تو نااہلی کی حد کر دی ہے۔ہر کام کو اُلٹے طریقے سے کرنا اپنی عادت بنا ڈالا ہے۔ڈاکٹر کو افسر لگا دیتے ہیں انجینئر کو پولیس میں لگا دیتے ہیں اور تو اور کرکٹر کو وزیراعظم لگا دیتے ہیں۔پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے امریکی اور برطانوی ماہرین کو بلا لیتے ہیں۔جس بری طرح سے پاکستان کو چلایا جارہا ہے۔اس بھونڈی طرح سے تو کوئی اپنی پرچون کی دکان بھی نہیں چلاتا ہے۔کوئی تعمیری تنقید بھی نہیں کرسکتا تھا کہ جیل میں بند کر دیتے ہیں۔میڈیا کے منہ پر چپ کی مہر لگا دی گئی اب سوشل میڈیا متبادل میڈیا بن گیا ہے۔اخبار اور ٹی وی چینلز پر قدغن تو لگائی جاسکتی ہے لیکن سوشل میڈیا کو کیسے خاموش کراپائینگے۔مطیع اللہ خان کو اغوا کرکے دیکھ لیا چند گھنٹوں میں ہی رہا کرنا پڑا۔آج کے گلوبل ویلیج میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنائی جاسکتی ہے،آپ جو کچھ کرینگے وہ سینکڑوں میں دنیا کہ کونے کونے میں پھیل جائیگی۔اگر انتہا پسندی بڑھتی گئی تو عالمی سطح پر یہ بات کہی جائیگی کہ ایٹمی اثاثہ کیا محفوظ رہیں گے؟یہ سوال یہاں امریکہ میں اُٹھایا جارہا ہے۔افغانستان سے امریکہ نکل کر ہندوستان کو افغانستان کے معاملات دیکھنے کو کہہ سکتا ہے ایسا معاملہ پاکستان کہ حق میں اچھا نہیں ہوگا۔دفاع کے اخراجات کو کم کرکے تعلیم پر زیادہ خرچ کریں تاکہ آپکی نوجوان نسل اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوسکے۔نہ کہ مدارس سے فارغ طالبان جو کہ مستقبل میں ملک کیلئے خطرناک ثابت ہوں۔ہندوستان کے ساتھ بھی کوئی امن معاہدہ کرنے کی کوشش کریں۔قرضہ پر جنگ کرنے کی عیاشی نہیں کی جاسکتی،کشمیر کو ہندوستان نے اپنا اٹوٹ انگ بنا دیا ہے آپ ایٹم بم رکھتے ہوئے کچھ نہیں کرپائے۔
٭٭٭