جسٹس فائزعیٰسی کو ہراساں کیا جارہا ہے؟

0
113
پیر مکرم الحق

حیرت کی بات ہے کہ ستمبر2023میں چیف جسٹس بننے والے جسٹس فائز عیٰسی کو ہراساں کرنے کی کوشش جاری وساری اب کھل کر اس کوشش میں ملٹری کے اعلیٰ فقید ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں۔پچھلے دنوں کراچی میں بیگم فائز عیٰسی جب اپنے آبائی مکان کی مرمت کے کام میں مصروف تھیں تو کچھ خفیہ اہل کار آئے اور انہوں نے اسی مکان کی ملکیت کے بارے میں سوالات کی بھرمار کردی جس پر بیگم فائزعیٰسی کی حیرت نہ صرف منطقی اور جائز تھی بلکہ کسی قانونی اجازت نامہ کے بغیر انکی رہائش گاہ میں ان اہلکاروں کا داخلہ آئین وقانون پاکستان اور چادر چار دیواری کے تحفظ کے تصور کی پامالی بھی تھی۔خفیہ اہلکار بضد تھے کہ ہمیں کسی وارنٹ یا اجازت نامہ کی ضرورت نہیں بلاواسطہ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ کسی آئین اور قانون کے تابعہ نہیں ہیں۔جو ادارے کسی چیف جسٹس(حاضر سروس) کو ماضی میں دھکے مارتے رہے اور انہیں گھر پر رہنے پر مجبور کیا گی محسوس کیا گیا وہ ادارے ایک ایسے شخص یا انکی اہلیہ کی عزت کیسے کرسکتے جو ابھی20 ماہ کے بعد چیف جسٹس بن سکتا ہے۔2021ء کے آخری ایام بلکہ دسمبر کی29ویں دن دوپہر12بجکر15منٹ پر ڈیفنس فیز5میں بیگم سرینا فائز عیٰسی اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے مرحوم بھائی کے گھر کی مرمت کی دیکھ بھال کروا رہی تھیں تو دو اشخاص جنہوں نے اپنا تعلق ملٹری انٹیلی جنس سے بتایا وہ ان سے اس مکان کی ملکیت اور وراثت کے متعلق سوالات کی بھرمار کرنے لگے۔بیگم فائز عیٰسی کو حیرت ہوئی کہ وارثت کی تحقیقات کا کوئی طریقہ نہیں اور انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسی تحقیقات کا کوئی اجازت نامہ ہے یا اپنے محکماتی شناختی کارڈ موجود ہیں۔جس پر انہوں نے کسی اجاز نامہ یا وارنٹ کی موجودگی سے تو انکار کیا لیکن کسی شناختی کارڈ کی موجودگی سے بھی مکر گئے۔جس پر سپریم کورٹ کے جج جو خود وکالت کرتی رہی ہیں۔انہوں نے حیرت کا اظہار کیا اور انہیں اپنے گھر سے نکل جانے کو کہا ،خدا کی پناہ قارئین آپ اندازہ لگائیں اگر سپریم کورٹ کی بیگم اور بیٹی کو انکے بھائی(مرحوم)کے گھر میں گھس کر اس طرح ہراساں کیا جاسکتا ہے تو ایک عام آدمی یا اسکے گھر کی خواتین اس ملک میں کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ان دو مسافروں کے جانے کے بعد دو اور اشخصاص آگئے جنہوں نے اپنا تعلق انٹیلی جنس ادارے سے بتایا غالباً ہے انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار تھے انہوں نے بھی سوالات کو دہرایا۔جو اس سے پہلے آنے والے اشخاص کر چکے تھے۔ان میں سے ایک شخص نے اپنا نام انسپکٹر محمد ذیشان بتایا لیکن ان افراد کے پاس بھی کوئی شناختی ثبوت نہیں تھا بہرحال بیگم سرینا عیسیٰ نےDHA کے دفتر فون کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ اس طرح یہ حضرات اس گھر کی ملکیت اور وراثت پر سوالات کر رہے ہیں۔جس پر ڈی ایچ اے کے اعلیٰ افسر نے کہا کہ یہ ہمارے بھیجے ہوئے لوگ ہرگز نہیں اگر کسی خفیہ ادارے کے ترجمان ہیں تو انہیںDHAسے یہ معلومات فراہم کی جاسکتی ہے۔اور انہیں کوئی حق نہیں کے یہ آپ لوگوں سے راہ راست سوال جواب کریں۔آنے والے اشخاص جاتے جاتے انہیں سوالات کی لمبی چوڑی فہرست دے گئے جس میں انکے بنک کھاتوں کی تفصیل سوشل میڈیا سے منسلک فون نمبر اور سیاسی وابستگی موجودہ اور ماضی کو تفصیل تک مانگی گئی تھی۔بیگم سرینا عیٰسی نے سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو خطوط ارسال کئے جس میں اس سے واقعہ کی تفصیل اور مانگی گئی معلومات کی فہرست بھی بھیجنی ہیں اس سوال کے ساتھ کہ کیا ہے طریقہ کار کسی مہذب ملک میں کسی عام آدمی کے ساتھ بھی اپنایا جاسکتا ہے۔یہ جائیکہ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کے خاندان بہو بیٹوں کے ساتھ روا رکھا جاسکتا ہے؟ہمیں احساس ہے کہ وہ سیکرٹری صاحبان کیا جواب دینگے اگر انہوں نے اس معاملے کو اٹھایا تو انہیں بھی جھڑک دیا جائیگا کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ایف آئی اے دوسری طرف سابق ڈائریکٹر جنرل اور ایک اچھی شہرت کے پولیس افسر بشیر احمد شیخ کی شامت آئی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے پچھلے سال ایک انٹرویو میں یہ راز فاش کردیا تھا کہ انہیں موجودہ وزیراعظم نے بلوا کر کہا تھا کہ جسٹس فائز عیٰسی کے خلاف ایف آئی اےFIAتحقیقات کروائے جس پر انکار کرنے کی پاواش میں انہیں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔حال ہی میں بشیر شیخ کے خلاف رخصت پر بھیج دیا گیا حال ہی میں بشیر شیخ کے خلاف انسانی اسمگلنگ کے بڑے ملزم کی مدد کے الزام میں ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی۔یاد رہے کہ شیخ صاحب کو ریٹائر ہوئے بھی تین برس ہوگئے ہیں۔ان کا تعلق بدقسمتی سے سندھ سے ہے۔
آخر جسٹس فائز عیٰسی نے کیا جرم کیا تھا جو ان کے ساتھ ان خاندان کو یہ ہزیمت اٹھانی پڑی۔تو قارئین انکے جرائم کی تفصیل کچھ اس طرح ہے گمشدہ افراد کے مقدمہ میں انہوں نے ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے سربراہان کو طلب کیا تھا جو آئے تو نہیں لیکن انھوںنے انتقامی کارروائی کی شروعات کردی، آج جسٹس عیٰسی اور انکا خاندان سوالوں کے نرغے میں ہیں، یہ ہے پاکستان!!!!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here