ظلم کی متعدد شکلیں ہیں، ہر شکل کے پیچھے مال کی محبت، دنیا کی محبت اور عہدوں کی محبت اقتدار کو طُول دینے کی محبت چھپی ہوتی ہے۔ انسانوں کو ظلم اور اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے انجام سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا تو چند دن ہے ساتھ چھوڑ جائیگی، مگر آخرت کی زندگی میں ذرہ بھر بھی ظالم سے رعایت نہیں کی جائیگی۔ مظلوم کی فریاد ایک ایسا تیر ہے جس سے ظالم بچ نہیں سکتا۔ سرکار دو عالمﷺ نے جب حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو نصیحت کی، معاذ مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا مظلوم مظلوم ہوتا ہے خواہ وہ فاسق و فاجر ارو کافر کیوں نہ ہو۔ اے وہ انسان جس کیلئے مسلمانوں خے خون قدر و قیمت سے خالی ہو گئے مسلمانوں کی عزت کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ اللہ سے ڈر، ظلم کے انجام سے باخبر ہو جا، خالد بن عبداللہ برمکی مملکت میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ بیٹے سمیت جیل میں چلا گیا۔ بیٹے نے جیل میں کہا ابا جی ہم کتنی شان و شوکت والے تھے اور اب جیل میں سڑ رہے ہیں۔ باپ نے کہا بیٹا حق سچ بتاؤں بیٹے نے کہا جی بتائیے باپ نے کہا آج ہمارا یہ حال اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مظلوم کی پکار پر کان نہیں دھرے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔
جو لوگ خوف خدا کا دامن تھام لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کیلئے راہیں آسان کر دیتا ہے سرکار دو عالمﷺ ارشاف فرماتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں، پھر سرکار دو عالمﷺ نے یہ آیت پڑھی سورۃ ہود آیت نمبر 102 تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جبکہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے۔ بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔ اس لئے اے انسان خلق خدا پر ظلم نہ کر اور ہر اس قول اور عمل سے اپنے آپ کو بچا کہ رکھ جس سے ظلم کی مدد ہوتی ہے حدیث قُدسی ہے ارشاد ربانی ہے۔ اے میرے بندو میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے لئے بھی حرام کر دیا ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ہماری تاریخ میں بہت مثالیں ہیں۔ آج بھی ہیں امام ابن جوزی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے فرماتے ہیں سلمان الیتمی ایک صالح عبادت گزار شخص تھے۔ ان کا کسی آدمی سے اختلاف تھا۔ آپ کا اس کیساتھ جھگڑا ہو گیا اس ظالم نے ایک زور کا گھونسہ آپ کے پیٹ پر دے مارا۔ آپ نے بجائے جوابی گھونسا مارنے کے ہاتھ بارگاہ ایزدی میں اُٹھا دیئے اے اللہ تو ہی فیصلہ فرما۔ا لحلیہ میں امام ابن جوزی لکھتے ہیں کہ اس کا ہاتھ اسی وقت سُوکھ گیا۔ سوچو رمضان المبارک کا مہینہ روزے دار، قرآن پڑھتے ہوئے، نماز کی حالت میں جب آپ گولی ماریں گے تو اس مظلوم کے منہ سے بددعا نکلے یا نکلے لیکن یہ تو نکلا ہوگا کہ اللہ میں تو نہتا ہوں تو تو دیکھ رہا ہے شہید ہوتے ہوئے اگر وہ کہے مجھے پانی نہ پلاؤ میں روزے سے ہوں تو سوچو ظالموں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔ کیا جواب دو گے۔ کیا جواب دو گے۔
٭٭٭