سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! میں نے کچھ عرصے سے ٹاک شوز دیکھنے اور سننے کا اپنا پیٹرن تبدیل کر لیا ہے۔ خاص طور پر وطن عزیز کے ٹاک شوز یقین جانیے ایک ہی رَٹ اور ایک ہی لے میں سب کے سب شوز ہو رہے ہیں وہی دس بڑے چینلز وہی دس مہمان وہی ایکٹرز اور ایکٹرسز شام 6 بجے سے 11 بجے تک اتنا شور ڈالتے ہیں کہ کان پک گئے ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت آپ خود اس ہفتہ کا ڈاکٹر مالک کا شو ویو پوائنٹ، حبیب اکرم کا اختلافی نوٹ دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں، دونوں کے نشانہ پر پنجاب کا وزیر اعلی عثمان بزدارہے۔راقم نے ان صاحبانِ دانش کے شور سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرکز اور صوبہ انکی جیبوں کو گرم نہیں کر رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ بزدار کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کے اس نے عمران خان کی جماعت کو الیکشن سے چند روز پہلے جوائین کیا ہے اور اس سے پہلے وہ شہباز شریف کی جو تیوں میں بیٹھا ہواتھا۔ اس ایک احتراز کے ساتھ ایک بڑا نقطہ لے کر آتے ہیں ۔
قارئین وطن!ان حضرات سے بڑی معذرت کے ساتھ کہ1947ءسے لے کر آج تک کون کس کی جوتیوں میں بیٹھا ہے اور یہ صاحبانِ علم بھی کہاں کھڑے اور بیٹھے ہوئے تھے اور خاص طور پر ان لوگوں کے لفافہ سپلائیر کس کس گلی میں گھوم کر ان بڑے مقامات پر براجمان ہیں ۔ خدا کی قسم 70 فیصد ان اینکروں اور صحافتی حلقہ کے زور وروں کوبڑے قریب سے دیکھا ہے اس لئیے میرا مشورہ یہی ہے کہ !
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حقائیت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ!
آج جب کہ پاکستان نئے پولیٹیکل ایشوز میں گھرا ہوا ہے اور ان لوگوں کو نئے ڈائیمنشنز پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ بزدار اور سیکرٹریوں کے تبادلوں میں الجھی ہوئی ہے۔ اسی شو میں عارف اقبال بھٹی کی خدارا ایکٹنگ دیکھ لیں کہ ان کادعویٰ یہ بتاتا ہے کہ عمران خان کو نہیں بلکہ یہ عمران خان کو اپنی جیب میں لئے پھرتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ جو بتا رہے ہیں اس میں رتی بھر بھی مغالطہ نہیں ہے بلکہ ہربات حقیقت پر مبنی ہے اللہ ہی ان کا اور پاکستان کا محافظ ہو۔
قارئین وطن! ان دانشوروں کے شور سے اپنے کانوں کو بچانے کےلئے اور بزدار سکنکس (Sickness) سے بچنے کےلئے میں شیکر گپتا دی پرنٹ، کرن تھاپر ، عارفہ خانم شیروانی، راویش کمار،اور پروان شیوانی کو اور گلوبل چائنہ کو سن رہا ہوں ان کو سننے کے بعد مجھے اس خطہ کی سیاست، معاشیات، ملٹری ، سوشل اور ڈپلومیسی کو سمجھنے کا بہترین موقع مل رہا ہے۔ بھارت کے ان دانشوروں کو سن کر بھارتی پراپگنڈے کو سمجھنے کا بھی ایک نادر موقع موجود ہے۔ لیکن افسوس ہمارے سو کالڈ ٹاک شو ایکٹر ان ایشوز میں الجھی ہوئی ہے اگر یہ خطہ کے حالات کو بدل جانیں دیں تو یہ قوم پر بڑی مہربانی کریں گے۔
ساحر لدھیانوی کا ایک بڑا مشہور شعر تھا! کہ جس کا مفہوم یہ ہے میں نہ تمھیں سبق دوں گا کھیت جلانے کا،مقصد یہ ہے کہ تقسیم بدل سکتی ہے اگر کھیت جل گیا تو کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ میں محمد مالک صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یہی مشورہ دوں گا کہ بزدار اور مائنس ون اور ٹو کو چھوڑ کر را،سی آئی اے ، موساد ، چین، اور ایران پر توجہ دیں کہ جووقت کی اہم ضرورت ہے۔
مجھے امریکہ میں ایک دوست جسپال سنگھ صاحب نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی فکر کرو میں نے جواب دیا کہ مسٹر ذونگ اور پونگ کو بھیجوں تو چپ سادھ ہو گئے۔ چائنہ نے خطہ کے پولیٹیکل ڈائیمینشن کوبدل کر رکھ دیا ہے “تھینک یو چائینہ” آپ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ دوستی کیا ہوتی ہے ۔
قارئین وطن! جو لوگ ہمیں چائینہ کی انوسٹمنٹ پالیسی سے ڈراتے ہیں وہ یقیناً امریکی زبان بول رہے ہیں ایسے لوگوں سے اجتناب کی ضرورت ہے پاکستان کو ان بیڑیوں کو توڑنا ہے اگر ہم نے آنےوالی نسلوں کو آزادی سے ہمکنار کر نا ہے۔رئیس شہر قمر بشیر صاحب اور کرنل امیر حسین صاحب درست فرماتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے وہ دن کے جس کا وعدہ ہے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے حق کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
٭٭٭