امریکہ جل رہا ہے!!!

0
393
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

ملک میں کورونا کی وبا سے لاک ڈاﺅن میں زرا نرمی ہوئی اور زندگی نے دستک دی ہی تھی کی کہ ایک افسوسناک واقعے نے ملک بھر میں آگ لگا دی ہے ،بڑی بڑی دکانوں کو سرعام لوٹ لیا گیا ، پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا ، جگہ جگہ گاڑیاں جل رہی ہیں جبکہ معروف برانڈز کے سٹورز لٹیروں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے نظر آ رہے ہیں ،جگہ جگہ مظاہرین لوٹ مار میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں ، ایسے مناظر دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، ملک میں تین شخصیات جارج فلوئیڈ، برینن ٹیلر اور احمد اربری کے قتل کے بعد جو مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،پیر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام شخص کی گردن پر اپنے گھٹنے سے دباو¿ ڈال رکھا تھاجو بعد میں دم توڑ گیا تھا،مذکورہ شخص کی شناخت 46 سالہ جارج فلوئیڈ کے نام سے ہوئی تھی جو مقامی ہوٹل میں سیکیورٹی گارڈ تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ مذکورہ شخص کو ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور کے قریب سے جعلی بل منظور کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھالیکن اس نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی کوشش کی۔
خاص طورپر سیاہ فام کمیونٹی سب سے زیادہ غصے میں دکھائی دے رہی ہے ،نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں زیر ملازمت سیاہ فام اہلکار اپنی ملازمتوں سے نفرت کرتے دکھائی دے رہے ہیں ، گزشتہ دنوں اس ساری صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر ایک سابق پولیس آفیسر نے اپنی ہی گن سے خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا لیکن گلیوں اور سڑکوں پر سرعام توڑ پھوڑ کرنے والے مظاہرین کے خلاف کارروائی کے حوالے سے بھی مجھے پولیس کے کردار پر تشویش ہے ، تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ نیا نہیں ہے ، اس سے قبل بھی پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں ، پولیس حراست کے دوران ملزمان کی ہلاکتوں نے اب تک بہت سے مظاہروںکو جنم دیا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیوںہمارے حکمران قانون نافذکرنے والے اداروں کو جواب دہ بنانے میںناکام ہیں ؟ کیوںہماری حکومت سیکیورٹی اداروں پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے؟ جبکہ دوسری طرف تعلیم ، بنیادی صحت اور ٹرانسپورٹیشن سہولیات کے منتظر عوام حکومتی فنڈز کی راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں جانے والے اراکین بھی لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بجٹ کی کٹوتی کے لیے مجبور کرتے ہیں، اسمبلی مین مائیکل ڈین ڈیکر نے 22ہزار ڈالر کی رقم سیکیورٹی اداروں سے لی جوکہ الیکشن سائیکل کا حصہ تھی لیکن انھوں نے یہ رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا ، اب ایسے اسمبلی اراکین کو بھی جواب دہ بنانا چاہئے تاکہ عوامی پیسہ کو بچایا جائے ، ہمیں ہر صورت پولیس کو جواب دہ بنانا ہوگا ، اس وقت پولیس کو جواب دہ بنانے اور اس کی نگرانی کو سخت کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں چار بلز زیر بحث ہیں جن میں پولیس کی کارروائی کو خفیہ نہ بنانے کے حوالے سے بل (A2513)پہلے نمبر پر ہے ،پولیس کے اعدادو شمار کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے دوسرا بل (A05472 (ہے جس کی منظوری کے بعد پولیس حراست کے دوران قتل ہونے والے ملزمان کی رپورٹ زیادہ کھلے انداز میں ہوسکے گی ، اس سلسلے میں تیسرا بل سپیشل پراسیکیوٹر(A1601 )ہے جوکہ اٹارنی جنرل کو اختیار دے گا کہ وہ اپنے طور پر پولیس حراست کے دوران ہلاک ہونے والے ملزمان کی تحقیقات کر سکے ، اس سلسلے میں چوتھا بل (A4053) ہے جس کی منظوری سے غیرضروری گرفتاریوں کو روکنے میں مدد ملے گی ۔
کوئی اسمبلی کا رکن کسی بھی زیر بحث یا متوقع بل کو چھپا نہیں سکتا ہے ، اب وقت تبدیلی کاہے ،ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جوپولیس کی جانب سے نا انصافیوں کا تدارک کر سکے اورکمیونٹی کے حقوق کے لیے لڑے ، امریکہ میں مقیم بے شمار کمیونٹیز کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی عزت نفس بحال کرنے کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ، ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جوہمارے حقوق کے لیے لڑیںاور پولیس کے جرائم قوانین میں تبدیلی لا سکیں ، کمیونٹیز کے مسائل حل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز لینا جانتے ہوں ، انتخابات سر پر ہیں اور ہمیں ایسے” مسٹر رائٹ“کی ضرورت ہے جوکہ اپنی مخلصانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ملکی کرپٹ نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،یہ بھی خدشہ ہے کہ ملک میں جاری مظاہروں کی وجہ سے کرونا وائرس کا حملہ ایک بار پھر زور پکڑ سکتا ہے،بہت کم مظاہرین نے ماسک پہنے ہیں اور ایک دوسرے سے دوری کا بالکل خیال نہیں رکھا جا رہا ہے،کورونا وائرس سے زیادہ تر سیاہ فام اور سفید فام افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
دعا گو ہوں کہ پرامن ، ہنستا ، بستا ،امریکہ جو ہم سالوں سے دیکھتے آئے ہیں، اپنی اصل چکا و چوند میں واپس آجائے اور ہم پہلے کی طرح سب مل کر پر امن زندگی بسر کر سکیں ، اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو،،آمین !
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here