پرنٹ میڈیا سے لگاﺅ رکھنے والے افراد کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اخبارات نے جدید میڈیا میں جاندار واپسی شروع کر دی ہے ، لوگوں کی بڑی تعداد موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر من گھڑت خبروں اور ذاتی عناد پر مبنی مضامین کو پڑھ اور سن کر اکتا چکے ہیں ،اب کمیونٹی کی اکثریت مصدقہ خبروں اور مضامین کو پڑھنے میں دلچسپی لے رہی ہے اور ناشتے کی میز سے آفس کے ٹیبل تک اخبار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ، ایک وقت تھا کہ کمیونٹی میں اخبارات کی بڑی قدر تھی، لوگ اخبارات کو سوغات سمجھ کر گھر لے جاتے اور اخبارات کے مالکان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ وہ دیار غیر میں رہ کر نہ صرف اپنے مادر وطن کی خبریں بلکہ امریکہ میں مختلف شہروں میں رہائش پذیر پاکستانی کمیونٹی کی خبریں یکجا کر کے بہت محنت اور لگن سے اخبارات تیار کرتے ہیں، یہاں پر مقامی بزنس مین کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار بھی اخبارات پر اور اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر ہوتا تھا۔ وقت نے 90 ڈگری کا یو ٹرن لیا اور سوشل میڈیا کے آتے ہی اکثر لوگوں نے سوشل میڈیا کی جانب اندھی دوڑ لگا دی۔ ہر تیسرا شخص سوشل میڈیا پر کالم نگار بن گیا جس نے کبھی دو لفظ بھی تحریر نہ کئے تھے وہ بھی فیس بک پر مدیر اعلیٰ اور اپنے مختصراً ٹی وی بنا کر بیٹھ گیا لیکن کہا جاتا ہے کہ جو چیز جس تیزی سے اوپر جاتی ہے اُسی تیزی سے واپس بھی آتی ہے اور پھر ہر نئی چیز کا بھی اپنا ایک نشہ یا تاثیر ہوتی ہے، واٹس ایپ کی مثال بھی آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح پہلے لاتعداد افراد کا گروپ بنتا تھا اور پیغامات کا سلسلہ وسیع تھا پھر اس میں تعداد کی شرائط کو متعارف کرایا گیا اور اب یہ سکڑ کر پانچ افراد سے بھی کم تر ہونے والا ہے ،تو بات چل رہی تھی اخبارات کی کہ کمیونٹی کی اکثریت ناتجربہ کار یا برائے نام صحافیوں کی بھیڑ چالوں سے اکتا چکی ہے اور اخبارات میں اپنی دلچسپی کو بڑھا رہی ہے ، ہماری کمیونٹی میں یوں تو بھیڑ چال پر سب ہی شامل ہوتے ہیں لیکن اس سے کمیونٹی میں کچرا لیڈران کا ضرور اضافہ ہو گیا تھا میں خاموش صبر کےساتھ دیکھتا چلا آرہا تھاکہ اس نئے دور کے سوشل میڈیا کی دوڑ کہاں تک جاتی ہے، ہر نئی دریافت کے فائدے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے منفی اثرات بھی نکلتے ہیں گزشتہ چند سالوں میں کمیونٹی میں چند نام نہا دکچرا لیڈران کا جس تیزی سے اضافہ ہوا تھا آہستہ آہستہ وہ اپنی ہی موت خود مر گئے یا مرنے کے قریب ہیں۔ نیویارک ٹائم کی پرنٹ سرکولیشن پر زوال کے باوجود آج بھی اس کے پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے لیکن اس کےساتھ پرانے لوگ آج بھی پرنٹ اخبارات کو ترجیح دیتے ہیں ۔اسی طرح ہماری کمیونٹی میں ایک بڑے گیپ کے بعد بزنس طبقہ اور کمیونٹی کے وہ لوگ جنہیں اخبارات سے لگاﺅ ہے ،ناشتے کی میز پر اخبار پڑھنے کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جوکہ ایک مثبت سرگرمی ہے ، اپنے اخبار کی سرکولیشن اور پڑھنے والے افراد کی تعداد کا مجھ سے بہتر کون اندازہ لگا سکتا ہے کیونکہ آج کل میں نیویارک میں زیادہ تر اخبار کی ڈسٹری بیوشن کا کام خود ہی انجام دیتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر ہفتہ نئے اخبار ڈالنے جاﺅ تو پرانا اخبار کی واپسی کم ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ اس کےساتھ وہ تیزی سے اُبھرتے کچرا لیڈران بھی رفتہ رفتہ گم ہو رہے ہیں جوکہ یوٹیوب چینل بنا کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کو پسندیدہ مشغلہ قرار دیتے ہیں ، میں ایسے چینلز کے ہرگز خلاف ہوں اور کمیونٹی سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ایسے چینلز اور برائے نام صحافیوں کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریں جوکہ لوگوں کی عزت سے کھیلنے کے لیے من گھڑت کہانیوں سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کرتے ہیں ، ایسے کچرا صحافیوں نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ دیار غار میں کمیونٹی کے سر وں کو شرم سے جھکا دیا ہے ، ہم لوگ اپنی شہرت کے لیے اپنے بہن بھائیوں کی عزت کو اچھال رہے ہیں تاکہ ہمارے یوٹیوب چینلز کو زیادہ فالوورز مل جائیں یا زیادہ لائیک مل جائیں ، یہ ایک انتہائی گھناﺅنا اور غیراخلاقی جرم ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔میرا ان کچرا لیڈران سے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ دنیا میں تبدیلیاں بہتری کی خاطر تو اچھی لگتی ہیں لیکن گھر بیٹھے پبلشر بننا اور بلا وجہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالنا بند کر دیں کیونکہ لوگ خود نمائی، خود ساختہ لیڈران کو پہچان گئی ہے۔ میں ان تمام کمیونٹی رہنماﺅں، دوستوں اور خیر خواہوں کا مشکور ہوں جنہوں نے میری ساس (خوش دامن) کی وفات پر مجھ سے تعزیت کی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کا اجر دے اور میری (خوش دامن) جو کہ ماں ہوتی ہے ان کے درجات بلند کرے۔ (آمین)۔
٭٭٭