انسان ڈاکو کیسے بنتا ہے؟ اس کا اندازہ آپ یا تو ڈاکو سے مل کر لگا سکتے ہیں یا پھر پرانی کتابوں اور فلموں میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایک اچھا خاصا انسان ڈاکو کیوں بن جاتا ہے اور ان کہانیوں کے کرداروں سے آپ کو ہمدردی ہو جاتی ہے، ان میں ایک عورت بھی شامل ہے، پھولن دیوی جس پر فلم بنی تھی، حکومت ہند نے اُسے معاف کر دیا تھا اور پھر وہ راجیہ سبھا کی ممبر بھی چناﺅ کے ذریعے بن گئی یہ تو تھی حقیقت اس زمانے کی، زیادہ عرصہ نہیں گزرا 20 ویں صدی کے شروع کی بات ہے، ہندوستان میں زمیندار کے ظلم سے تنگ آکر کسان بندوق اٹھا لیتا تھا۔ پاکستانی فلم ”آگ کا دریا“ اس کی مثال ہے۔ دلیپ کمار نے اس پر فلم بنائی تھی ”گنگا جمنا“ دونوں فلموں میں دونوں ڈاکوﺅں سے فلم بین کو ہمدردی ہو جاتی ہے وہی اس فلم کے ہیرو ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ تب ہی ہوتا ہے جہاں غریب کو انصاف نہ ملے۔
اس کے علاوہ برٹش پیریڈ میں سلطانہ ڈاکو کا واقعہ ضرب المثل بن گیا تھا کہ جب پھانسی سے ایک دن پہلے سلطانہ ڈاکو کی ماں اس سے ملنے آئی تو اس نے اپنا رخ دیوار کی طرف کر لیا جب وہ رو رہی تھی تو اس نے صرف اتنا کہا! ”کاہے کو روئے ہے، گر تو مجھے پہلا انڈا چرانے پر سزا دیتی تو میں یہاں نہ ہوتا، نہ تو“ اس دور کا معاشرہ نہایت امن پسند اور شرافت کی تصویر تھا، بھوک و پیاس اس زمانے میں بھی تھی لیکن تربیت نے اچھے انسانوں کو جنم دیا تھا جس سے اچھا معاشرہ وجود میں آیا تھا، ڈاکو کے پھانسی چڑھانے پر کوئی واویلا نہیں ہوتا تھا، زندگی رواں دواں ہوتی تھی اور لوگ اطمینان کا سانس لیتے تھے یہ برٹش دور تھا جہاں قانون کی بالادستی تھی یہ وہ حکومت تھی جس کےخلاف تحریکوں نے جنم لیا، پورے ہندوستان میں جلیانوالہ باغ سے بنگال تک برطانوی راج کےخلاف لوگ ڈٹ گئے تھے اور وقت آیا کہ انگریز ہندوستان کے دو ٹکڑے کر کے واپس چلا گیا، وہ اتنا کچھ دے گیا کہ ہم اُسے سنبھال کر رکھتے تو آج ہمارے ملک پاکستان کا نقشہ یہ نہ ہوتا اور اس کی ذمہ دار ہماری عدلیہ ہے اور صوبائی بربریت جو اپنے سے کم تر صوبے کےساتھ نا انصافی کرتی ہے۔ ہمارے سیاستداں جو کبھی بھی اس ملک سے وفادار نہیں رہے۔ انہوں نے ہی موقعہ دیا کہ فوج ہم پر راج کرے اور وہ کر رہی ہے ، اپنی اہمیت کو کیش کرا رہی ہے۔ غور کریں کہ کس ملک کی فوج (جنرلز) نے ایسا کیا ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعدوہ بادشاہوں کی زندگی گزارتے ہوں اور دوسرے ملکوں میں اپنی جائیددایں بنائیں یہاں ہمارا مقصد ایک عام فوجی کو بُرا کہنا نہیں وہ ہمارے لئے سرمایہ ہے، بات ڈاکوﺅں کی ہو رہی تھی۔
اب ہم 21 ویں صدی میں سانس لیتے ہیں اور ملک کا شیرازہ بکھرا ملتا ہے اس میں بھٹو فیملی، زرداری اور نوازشریف کا نام آتا ہے جو غریب عوام کیلئے ڈاکو کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ وہ ڈاکو ہیں جن پر ظلم و ستم نہیں ہوا جن کے پیٹ میں روٹی نہ تھی جن کے پاس رہنے کو گھر نہ تھے یا تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا نہیں تھا۔ ان تین ضرورتوں کیلئے ایک عام انسان ہمیشہ لڑا ہے۔ انقلاب فرانس، تاریخ میں زندہ ہیں اور وہ عبرت دلانے کیلئے ہیں، سب سے پہلے جس شخص نے عوام کو بیوقوف بنایا وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا جو روٹی کپڑا اور مکان، دینے آیا تھا بڑی طاقت بن کر اُبھرا ۔پورا پاکستان جب ایک تھا، سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر نہ تھا۔ ایک تھے اور سب نے بھٹو کو زندہ باد کہا تھا لیکن افسوس جب اُسے اقتدار مل گیا تو جلد ہی عوام میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی، پارٹی کے کچھ سیاستدان اپنے مفاد کیلئے ملک و دولت لوٹنے میں لگ گئے، فوج کو موقعہ مل گیا اور مارشل لاءلگا دیا گیا لیکن اس مارشل لاءکے پیچھے شعور رکھنے والے نہ تھے جو ایوب خان کے پیچھے تھے اور ملک نے ترقی کی تھی، اس مارشل لاءنے ملک کو دوسروں کی آگ میں جھونک دیا جس کا نتیجہ ہم آج مذہبی جنون کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ ضیاءالحق کو بڑی طاقت نے لقمہ¿ اجل بنا دیا اور پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں نے اپنی ذات اور اپنے بنک بیلنس بڑھانے کیلئے غریبوں کے حق پر ڈاکے مارے، نوازشریف نے تو پنجاب میں کچھ کام کئے لاہو رکو پیرس بنایا بقول عوام کے لگایا اور کھایا لیکن بینظیر اور زرداری نے صرف کھایا ہی کھایا، اور یہ دونوں حکومتیں ڈاکوﺅں کا ٹولہ بن کر عوام اور ملک کو لوٹنے میں لگ گئیں۔ نوازشریف نے سمجھا کہ وہ دوسرا امیر المومنین ہے بھول گیا تھا کہ عوام کو بھی کچھ دینا ہے یہاں ہماری مراد مزدور اور کسان سے ہے لیکن یہ ڈاکو بجائے مالداروں کے غریب عوام کو لوٹ کر کنگال کر رہے تھے، پکڑے جانے پر وایلا مچاتے رہے اور عمران خان کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ملک کی تباہی کا، دوسری جانب ایک ڈاکو اپنی بہن کےساتھ مل کر پورے سندھ کو تباہ کر چکا تھا۔ ہر ادارہ ناکارہ ہو چکا تھا، شہروں کی حالت آثار قدیمہ تھی لیکن یہ اپنا سندھ کارڈ ”ہو جمالو“ کا نعرہ لگا کر بھٹو کو بار بار زندہ کرتا تھا، اس کی بہن جو مالی طور پر بے حد مالدار تھی ،زمینداری، وڈیرہ شاہی کی پیداوار تھی تو یہ فارمولا غلط ثابت ہو گیا کہ لوگ ڈاکو ظلم اور غربت سے تنگ آکر بنتے ہیں۔
اور آج عمران خان کی حکومت کو 13 ماہ ہو چکے ہیں لیکن شروع دن سے اس کےخلاف ڈاکوﺅں کا ٹولہ جتا ہوا ہے اور جب دو بڑے ڈاکو جیل میں ہیں تو انہوں نے ایک مذہبی رہنما (نام نہاد) کو عمران کی حکومت گرانے کا کان سونپا ہے ان کےساتھ وہ عوام بھی ہیں جنہیں زرداری اور نوازشریف کے دور میں فیض پہنچا ہے ہمارا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک ڈاکوﺅں کے نرغے میں ہے فوج کچھ کئے بغیر بدنام ہے ہر ڈاکو کو مراعات مل رہی ہیں وہ جیل میں نہیں بلکہ ریسٹ ہاﺅس میں ٹھہرے ہوئے ہیں، ہمارے فوجی جنرل اور حکومت (لاچار) بیان بازی کر رہے ہیں۔ ساری ذمہ داری نیب کو دے رکھی ہے ہم نہیں سمجھتے کہ عدلیہ، جنرلز جو بہت کچھ کر سکتے ہیں ملک میں حالات معمول پر لانے کیلئے سنجیدہ ہیں، عمران خان سنجیدہ ہے لیکن اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور اسکے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے اس کےساتھ ناکارہ لوگ ہیں اور نہ ہی جنرلز عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں جرم اور اس کیلئے سزا یقینی ہے کا تصور نہیں ہم پستی میں گرتے رہیں گے، ہم چین یا ملائیشیا کی خاک بھی نہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے تھے۔
٭٭٭