قائد اعظم کو برصغیرا کے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر بعض ناگوار معاہدات اور شرائط پر مجبوراً دستخط کرنا پڑے، آپ کے پاس وقت کم تھا اور کام زیادہ تھا ،انہوں نے غلامی پر لولے لنگڑے پاکستان کو ترجیح دی ان کے نزدیک پروانہ خود مختاری مل جانا ہی محرومی کا مداوا تھا اس لیے کہ قائد اعظم جان چکے تھے کہ ”ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں“ بتایا جاتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے ظفر اللہ قادیانی کی تقرری پر بہت زیادہ اصرار کیا تھا ،اور دھمکی دی تہی کہ جب تک یہ اعلان نہیں کیا جاتا ،اختیارات کی منتقلی نہ ہوسکے گی،،،،
ان ہی مسائل کے سبب قائد اعظم نے چوہدری ظفر اللہ قادیانی کے علاوہ جنرل ڈگلس گریسی کو پاکستان کی فوج کا کمانڈر انچیف اور سردار جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا تھا“مولانا فضل الرحمن کے ولد مفتی محمودعلی اعلان کہتے تھے کہ ہم پاکستان بننے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ فضل الرحمن ا±سی باپ کا بیٹا ہے۔ جو بے وقت کی راگنی گا رہا ہے۔ مدارس کے بچوں کو استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ باوردی فورس تیار ک جارہی ہے جو بی جے پی اور شیوسینا کی طرز پر دکھائی جارہی ہے۔ ریاست کے اندر ریاست کسی کو قائم کرنے کی اجازت نہیں ہونی۔ صوفی محمد کی تحریک ہو یا مولانا فضل الرحمن کی باوردی فورس ریاست کو چیلنج ہے۔ حکومت کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے۔ لٹھ بردار فورس کو اندر کرنا چاہئے۔ پاکستان میں ماضی کے تمام مہذب سیاستدان اور علماءکی اولاد نے ا±ن کی عزت کو تار تار کیا۔ ا±نکی عزت اور ا±صول پسندی کو پامال کیا۔ ولی خان کے بیٹے اسفندیار ولی نے اپنے باپ کی عزت کو پامال کیا۔ صمد خان اچکزئی کے بیٹے اچکزئی نے ا±س کے نظریہ پر تھوک دیا۔مولانا مودودی کے بیٹے اپنے باپ کے نافرمان ہوئے۔ اسی طرح مولانا مفتی محمود کے بیٹے مولانا فضل الرحمن جو نا خلف ثابت ہوئے۔ انکی تیس سالہ کرپشن نے علماءکے امیج کو تباہ کیا۔ علماءکے لئے نفرت پیدا کی۔ تیس سال سیاسی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ مدارس میں غنڈہ گردی کو فروغ دیا۔ پاکستان مہنگائی اور قرضوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ عمران خان نااہل ٹیم کے ساتھ اپنے مقصد میں سنجیدہ ہیں۔ چار افراد کی برتری کی حکومت ہوا کے جھونکے کے مانند بزنس کمیونٹی کا ٹیکس نا دینا۔ چور ہوں یا ڈاکو انکی منزل اور نانی ایک ہی ہوا کرتی ہے۔ حکومت گرانے کے لئے تمام چور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی دشمن قوتیں جن کامقصد پاکستان میں انتشار پیدا کرنا ہے۔ ایک چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں تاکہ کرپشن، ڈاکے اور بداعمالیوں کو بچایا جا سکے۔ فضل الرحمن کے ساتھ ایم کیو ایم لندن،منظور پشتین،اچکزئی،پیپلز پارٹی،ن لیگ ،اے این پی وغیرہ اسلام آباد کی طرف مارچ کے لئے جمع ہیں۔ چوروں کی اس بارات کو جیل کی یاترا کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان یو این اسمبلی میں اپنے دبنگ خطاب کے بعد ج±رات مند عالمی لیڈر کے طور پر ا±بھرکر سامنے آئے ہیں۔ یورپ سے لیکر امریکہ تک ا±ن کے جرات مندانہ موقف کو بہت سنجیدگی اور فکرمندی سے لیا جارہا ہے۔ ایشیاءاور عرب ریاستوں کی عوام میں عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو وزیراعظم کیوجہ سے اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ بلاش±بہ عمران خان نے پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں جس قد کے ساتھ کشمیر، دہشت گردی اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس و ناموس پر بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ یو این کی ہسٹری میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم جسطرح خطے میں جنگ کے اثرات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہیں۔ مسلم ا±مّہ ا±سے قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ ایران اور سعودیہ کا دورہ خطے میں امن± کے لئے ممدون ثابت ہوگا۔
اس اثناءمیں بیرونی قوتیں پاکستان کے حالات میں س±دھار دیکھنا نہیں چاہتیں۔ پاکستان کی دشمن± قوتوں کو متحرک کیا جارہا ہے۔ مولانا ڈیزل انہی قوتوں کے ہاتھوں کھیلنا چاہتے ہیں۔ 27 اکتوبر کو احتجاج اور اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنا کی کال بے وقت کی راگنی ہے۔ جب وزیراعظم پاکستان کو گرداب سے نکالنے اور خطے میں امن کےلئے کوشاں ہے۔ شائد احتساب کے عمل میں تیزی اور مولانا کے گلے میں کرپشن کا طوق ڈلنے سے پہلے مولانا کو حالات کی سنگینی کااندازہ ہو چکا ہے۔ تیس سال اقتدار کے مزے ختم ہونے کے غم نے مولانا کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ مولویوں میں فضل الرحمن اور حادم حسین رضوی جیسا شدید م±تنفر مولوی نہیں دیکھا گیا۔جوتکبر اور فرعونی لہجے میں بات کرتا ہو۔ مولانا کی دھرنے کے خلاف ماضی کے بیانات کو موجودہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا اخلاقی گراو¿ٹ اور ذہنی دیوالیہ پن کا شکار نظر آتے ہیں۔ بہر حال مولانا کومیڈیا پرجو پذیرائی ملی ہے۔ اسکی وجہ مہنگائی اور حکمرانوں کی نااہلیت ہے۔ مہنگائی میں پسہ طبقہ بہت پریشان ہے۔ حکومت کو غریب عوام کی پریشانیوں کا ازالہ کرنا چاہئے۔ عوام کو ریلیف دینا چاہئے۔ قوم مہنگائی ، کساد بازاری سے بلبلا اٹھے ہیں۔
حکمرانوں کی سنجیدگی کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہیں عوامی کی کمر توڑ مہنگائی کی فکر نہیں۔ مہوش حیات کی بہت فکر ہے۔ مہوش حیات کس کی منظور نظر ہے جس کو ہیومن رائٹس اور امن کا یو این او میں سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ جو عورتیں اپنی عزتیں حکومتی درندوں سے نہیں بچا سکتیں۔ وہ کیا خاک امن کی فاختہ کہاں جلائینگی۔ وزیراعظم صاحب ہوش کے ناخن لیں۔ بیروزگاری کے سمندر میں غرق عوام کو وڑنری وزیراعظم نے ماڈل لنگر خانے کھول کر کس کی اشک شوئی کی ہے۔ موجودہ حکومت نے معیشت کا جنازہ نکال دیاہے۔ چار سو ادارے بند کرکے لوگوں کو روزگار سے محروم کیا جارہا ہے۔ اپنی تمام نااہلیوں کا ملبہ سابقہ اشرافیہ پر ڈالکر خود تو مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن عوام اپنا ب±ھرکس نکلنے پر زیادہ دیرتک خاموش نہیں رہینگے۔
٭٭٭