اسیرانِ کربلا!!!

0
291
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گزشتہ سے پیوستہ!!!
راوی کہتا ہے کہ یہ خطبہ سن کر کوفہ لرزتا نظر آیا۔ جناب ام کلثومؑ نے دوسرے چوک پر خطبہ دیتے ہوئے کہا حمد و ثناءکے بعد فرمایا اے اہل کوفہ! ذلیل رہو۔ تم نے نواسہ¿ رسول کو پیاسا ذبح کیا۔ خیام لوٹے ،رسول زادیوں کو رسن بستہ کیا۔ لعنت ہو تم پر ،جانتے ہو تم نے کتنا ظلم کیا ہے ؟کتنے خون بہائے ؟دختر زہرائؑ کو قید کیا۔ افضل مردوں کے خون تم نے بہائے۔ تمہارے دلوں سے شرافت ختم ہو گئی۔ لوگ رونے لگے تھے۔ عورتیں سر نوچنے لگیں۔ منہ پر طمانچے مارنے لگے۔ مرد داڑھیاں نوچتے تھے۔ امام حسینؑ کی صاحبزادی فاطمہ کبریٰؑ نے کہا اہل کوفہ! اے مکرو فریب والو! اے دھوکے بازو! اے بحر غرور کے غرق شدہ! ہم علم الٰہی کا ظرف ہیں۔ ہم ادراک خالق کا خزینہ ہیں۔ ہم حکمت خدا کا گنجینہ ہیں۔ اللہ نے ہمیں صاحب معجزات و کرامات بنایا ہے۔ تم نے ہمیں جھٹلا کر کفر کیا۔ تم نے اسی کوفہ میں ہمارے جد کو مارا۔ تمہاری تلواروں سے اہل بیتؑ کا خون ٹپک رہا ہے۔ تم اپنے مظالم پر بغلیں نہ بجاﺅ۔ تمہیں یہ مظالم جلد عذاب خدا میں مبتلا کرینگے۔ تم ضمیر مردہ ہو۔ تمہارے جگر پتھر ہیں۔ ابلیس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باند رکھی ہے۔ ہم نے بھلا تمہارا کیا بگاڑا تھا؟ اے یزید و ابن زیاد! اپنے آباﺅ اجداد کی طرح خوش ہو لو۔ جو بوﺅ گے وہی کاٹو گے۔ تمہارا نام گالی بنا رہے گا۔ اس خطبہ کے بعد لوگ دیواروں پر سر مارتے تھے۔ امام زین العابدینؑ نے بازار کوفہ میں خطبہ دیا۔ اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ جانتاہے۔ جو نہیں جانتا پہچان لے۔ میں علیؑ ابن حسینؑ ابن علیؑ ابن ابی طالبؑ ہوں۔ میں وہ مظلوم ہوں جس کے اہل خاندان کو سفر میں لوٹا گیا۔ میں وہ بے کس ہوں جس کے خاندان کے خیام نظر آتش کر دیئے گئے۔ میں وہ غریب ہوں جس کا مال لوٹا گیا۔ میں وہ تنہا ہوں جس کی ماﺅں بہنوں، پھوپھیوں اور مستورات کو اس کے سامنے رسن بستہ کیا گیا۔ میں وہ یتیم ہوں جس کے باپ کو کسی جرم کے بغیر قتل کیا گیا۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس نے زیر خنجر دامن صبر نہ چھوڑا، مجھے اس پر فخر ہے، تم نے میرے بابا کو خط لکھے تھے پھر دھوکہ دیا خدا تم پر لعنت کرے، روز قیامت رسول کو کیا جواب دو گے؟ جب وہ پوچھیں گے کہ تم نے میری اولاد کو کس جرم میں ذبح کیا؟ میرے ناموس کو رسیاں پہنانے والو! تم میری امت نہیں ہو۔ جب لٹا ہوا کاروانِ آلؑ محمدﷺ عبید اللہ ابن زیادہ کے دربار میں پہنچا تو گورنر کوفہ نے امام حسینؑ کے سر مقدس کو طشت میں رکھ کر لبوں پر چھڑی لگائی تو دو بزرگ صحابی زید ابن ارقم اور انس بن مالک نے کہا اے امیر! چھڑی ان لبوں سے ہٹا لے۔ اس لئے کہ ہم نے رسولﷺ اسلام کو انہی لبوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی دوران ابن زیاد نے کہا تم رسوا ہوئے تم کس طرح قتل ہوئے۔ تمہارے جھوٹے اسلام اور جھوٹی نبوت (معاذ اللہ) کی قلعی کھل گئی جس پر سیدہ زینبؑ نے کہا!
اس اللہ کی حمد و ثناءہے جس نے اپنے خاتم الانبیاءمحمدﷺ کے اہل بیتؑ ہونے کا شرف بخشا ، جھوٹ فاجر بولا کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ فاسق و فاجر ہمارے اغیار ہیں، ابن زیاد نے کہا دیکھا! بی بی اللہ نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟
تو بی بی نے فرمایا میں نے جو کچھ دیکھا ہے اللہ نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ میرے بھائی اور ان کے انصار کو منصب شہادت ملا تو ان کے بارے نہ سوچ۔ تو یہ سوچ قیامت میں جب خدا ان شہداءکو تمہارے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا ،ان کا قصور کیا تھا؟ تو کیا جواب دے گا؟ اے مرجانہ زادے! اس دن دیکھنا کون کامیاب ہوتا ہے؟ ابن زیاد نے سید سجادؑ کو قتل کرنا چاہا تو سیدہ زینبؑ نے کہا پہلے مجھے قتل کر۔ سید سجادؑ نے کہا اے ابن زیاد! ہم قتل کی دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔ ابن زیاد نے سیدہ زینبؑ سے کہا بی بی تمہارا بھائی خلافت کے حصول کیلئے نکلا تھا!
جس پر بی بی نے فرمایا میرے بھائی کا حق تھا جو اللہ کی طرف سے انہیں ملا تھا۔
اسی دوران حضرت علیؑ کا ایک نابینا صحابی عبد اللہ ابن عفیف ایزدی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ کیا علیؑ ظاہری طور پر زندہ ہو کر آگئے؟ جس پر انہیں بتایا گیا یہ علیؑ کی بڑی صاحبزادی ہیں کیونکہ مولا علیؑ کی تمام اولاد میں صرف سیدہ زینبؑ کا لہجہ علوی تھا۔ عبداللہ ابن عفیف کے احتجاج پر انہیں پکڑ کر گھر پہنچا دیا گیا جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کے ذریعے تلوار مانگی اور اشقیاءکےساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد جناب عبداللہ ابن عفیف کی صاحبزادی نے لاش سنواری اور اشقیاءنے کوئی مزاحمت نہ کی مگر افسوس کے کربلا میں امت نے امام حسینؑ کی بیٹیوں کو لاش سنوارنے کی اجازت بھی نہ دی، ابھی سیدہ زینبؑ کا خطبہ ختم ہی ہوا تھا کہ زندان سے امیر مختار زنجیروں میں جکڑ کر لائے گئے، پسر مرجانہ نے امیر مختار سے پوچھا تمہیں زندان سے کون چھڑائے گا؟
تو انہوں نے کہا میرے مولا حسینؑ آتے ہی ہونگے جس پر گورنر نے کہا تمہیں تمہارا مولا ابھی دکھا دوں؟ جس پر امیر مختار دائیں بائیں دیکھنے لگے جس پر ابن زیاد نے سرِ حسینؑ سے رومال ہٹا دیا۔ امیر مختار نے بندھے ہاتھوں کو اپنے منہ پر مارا اور کہا یا اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں ابن زیاد کا سر اسی طرح طشت میں رکھ کر فرزندِ حسینؑ کے ہاتھ نہ بھیج دوں۔ اسیرانِ کربلا کی تعداد میں اگرچہ اختلاف موجود ہے مگر زیادہ روایات میں یہ ملتا ہے چونسٹھ تھے جن میں پانچ واپس آئے، بیبیاں چونسٹھ یا چوراسی تھیں جن میں سے بارہ واپس آئیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here