شبیر گُل
اللہ نے ہم یں شعور دیا ہے ،عقل عطاءکی ہے جس کا ہم اکثر استعمال کرتے ہیں ۔ ، جذبات و احساسات دئیے ہیں جس کا اپنی منشاءکے مطابق اظہار کرتے ہیں ۔ ووٹ دینے کے معاملہ میں اپنی عقل ، شعور اور جذباتی لگاو¿ کا پورا حق ادا کرتے ہیں ۔لیکن اللہ اور رسول اللہ کے معاملہ اپنی عقل کا استعمال ترک کر دیتے ہیں ۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے امانتیں امانت داروں کے س±پرد کرو۔ کیا ہم امانتیں ا±ن کے س±پرد کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کی زندگی آپکے سامنے کھلی کتاب کی طرح گزری ہو ، کردار کے ا±جلے ہوں۔ جب ووٹ کی امانت ا±کے س±پرد کرنے کاوقت آئے۔ ا±س وقت اپنے ضمیر سے بے وفائی کرتے ہیں ۔ داغدار ل±ٹیروں کے ہاتھوں اپنے جذبات و احساسات بیچ دیتے ہیں ۔اس وقت ہم گونگے،بہرے اور اندہے نظر آتے ہیں ۔
علماءطاقت رکھنے کے باوجود پاور لیس لوگ ہیں ۔انکو چاہئے دین دشمن طبقہ کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ لوگ علماءسے محبت کرتے ہیں ۔ جان چھڑکتے ہیں ۔ کردار کے اجلےسمجھتے ہیں ۔ لیکن ووٹ کی طاقت ان باکردار ،بے داغ ،خدا ترس لوگوں کے مقابلے میں چوروں، ڈاکوو¿ں اور عوام دشمنوں کے حق میں استعمال کرتے ہیں ۔ہم بھی عجیب قوم ہیں اپنے ہی دشمنوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے ہیں ۔ ہم اندر سے انتہائی منافق ہیں ، جن کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ا±نکو ووٹ دینے کے کئے تیار ہیں ۔ جن کو گالیاں دیتے ہیں انہی کو ووٹ کی طاقت فراہم کرتے ہیں ۔ ہم قرآن سے محبت کرتے ہیں ۔ ا±سکی تعلیمات سے محبت نہیں کرتے۔عاشقان رسول اللہ ہیں ۔ رسول اللہ سی محبت کرتے ہیں ۔ ا±نکے فرامین کی دھجیاں ا±ڑاتے ہیں ۔چوری کرتے ہیں ۔ لوٹ مار کرتے ہیں ۔ ملاوٹ کرتے ہیں ، حق غضب کرتے ہیں ۔ فحاشی و عریانی پھیلاتے ہیں ۔غرضکہ قرآن اور رسول کی تعلیمات کے باغی مگر دعوی مسلمان۔
متبادل
اب جب کہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ کسی خاص شخصیت کے اقتدار میں آنے سے کچھ نیا نہیں بنتا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا نوجوان جو نعروں کے بہکاوے میں آ گیا تھا اسے مایوسی سے بچایا جا سکے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایا ہوتے ہیں اور بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، ان کی امیدوں کے چراغ کو بجھنے سے پہلے انہیں تبدیلی کے اصل الاصول سے واقف کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ یہ جنریشن بھی پچھلی جنریشنز کی طرح مایوس ہو کر اس نظام کو قبول کرنے لگ جائے اور تبدیلی کی خواہش دم توڑ جائے، ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم انہیں اس سے بچنے میں مدد کریں اور اپنا کردار ادا کریں اور انہیں وہ alternative دیں جسکی وہ اس وقت شدید ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔آج کی نوجوان نسل کا سوال ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو پھر کون؟ اگر نواز شریف، زرداری، بلاول، شہباز نہیں تو پھر کون؟ کیا alternative ہے ہمارے پاس؟اس کا بہت سادہ سا جواب ہے۔ آپ ہیں اسکا alternative. یہی نوجوان جو اوروں سے امیدیں لگاتے ہیں جس دن خود کو اس قابل سمجھنے لگ جائیں گے کہ تبدیلی اصل انہی نے لے کے آنی ہے، یقین کریں اس قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔
نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اب کسی کی بات سن کر اسکے جذبات سے متاثر ہونے کی بجائے کسی بھی ایسے فرد یاپارٹی سے ، جو تبدیلی کا دعویٰ دار ہے، چند سوالات کیجیئے۔
تبدیل کیوں کرنا ہے؟تبدیل کیسے کرنا ہے؟ لائحہ عمل کیا ہوگا؟
نظریہ کیا ہے؟
اس پارٹی کو یا فرد کو فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟
اس پارٹی کی تیاری کس پلیٹ فارم پر ہوتی ہے؟
اس پارٹی میں شامل افراد کا کردار کیسا ہے؟
پارٹی میں شمولیت کا کرائٹیریا کیا ہے؟
وہ نوجوان جو اس پارٹی کےلئے بطور کارکن کام کریں گے انکا کیا رول ہوگا؟ ان کی تربیت کہاں اور کیسے ہوگی؟
اگر تبدیلی ائے گی تو اس میں نیا کیا ہوگا؟ آیا صرف چند اصلاحات مقصود ہیں یا مکمل نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں؟ جو پارٹی اندرونی خلفشار کا شکارہو وہ قوم کی کیا خدمت کرئیگی۔وزراءایکدوسرے سے ناراض۔ اوم سے تبدیلی کے بان ہر دھوکہ کھایا ہے ۔پی ٹی آئی کا نام پاکستان تحریک فراڈہو نا چاہئے۔
میری خواہش ہے کہ ہمارے اندر سوال اٹھانے کی ہمت پیدا ہو، ہم ہر وہ لیڈر یا پارٹی جو تبدیلی کا دعویٰ کرتی ہے، اس سے سوال کرسکیں۔ اسکو کٹہرے میں کھڑا کر سکیں۔ ہم کب تک اوروں کے جذباتی نعروں کے آگے ناچتے رہیں گے؟ کب تک انکے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہیں گے۔ مومن کبھی ایک سوراخ سے دو دفع نہیں ڈسا جاتا مگر ہم ستر سال سے ہر پانچ سال بعد ڈسے جاتے ہیں مگر ہمیں ہوش نہیں آ رہا۔ ہم غلامی کے اس درجہ کو پنہچ گئے ہیں کہ اب آزادی کی بات ہمیں مذاق اور دیوانے کا خواب دکھنے لگی ہے۔
ریاست مدینہ کا جھوٹا راگ الاپئے ، مسجدیں بند کر دئجیے۔ مندر بنائیے یا گ±ردیوارے۔مرزائیوں کو کھلی چھٹی دیں یا تعلیم نصاب سے نظریہ پاکستان اور عشق مصطفے کو کھرچ دئجیے۔
نئی نسل کوناچ گانا ، ڈھول ڈہم کا گروپ بنائیے یا مستقبل کے معمار کے جھوٹے خواب دکھلائیے۔
تعفن شدہ لاش کو لانڈری میں ڈال کر جتنی مرضی صفائی کر لئجے۔یہ لاش بد بو چھوڑ چکی ہے اس کو دفن کرنے سے ہی مسئلہ حل ہو گا۔بدبودار ٹولے سے تبدیلی نہیں آسکتی۔
بہت زیادہ یوٹرن سے گاڑی پٹری سے اتر چکی ہے ۔ملک کا ستیا ناس کردیا گیا ہے ۔تعلم مہنگی ، بجلی ،گیس مہنگی ،روزہ مرہ کی چیزیں مہنگی،دوائیاں مہنگی، ایک دن تیل سستا دوست ہفتے پچیس فیصد مہنگا۔یہ کیا مذاق ہے کہ لوگوں کی زندگی اجیرن۔
ہم جن علماءکے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ، ا±ن پر تنقیدبھی کھل کرکرتے ہیں ، جن پارٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں ا±نکی اچھی خاصی خبر لیتے ہیں ۔لیکن پی ٹی آئی کے یوتھیے تنقید برداشت نہیں کرتے۔ اکثریت بیہودگی پر ا±تر آتی ہے ۔ کیونکہ حکومت نانکی چھک میں ملی ہے ۔ پی ٹی آئی کے مامے ہوائی مخلوق پی ٹی آئی کے فیلئیر پر شرمندہ ہیں ،مگر ایسی ہی بیہودگی بوٹوں والی سرکار کا وطیرہ ہے ۔جو ملک میں بیماری کی اصلی جڑ ہیں ۔صرف دو جرنیلوں کو الٹا لگایا جائے تو ملکی سیاست سے گند اور کرپشن ختمہو سکتی ہے ۔
گزشتہ دنوں لاہور کے سکول سے بچیوں کی گندی موویز بنانے کے پیچہے استاتذہ کی بیہودگی ہے ۔ ٹی وی اور میڈیا پر بیٹہے بے غیرت اینکرز اس پر بول نہیں رہے ۔ کیونکہ ان مجرموں کی ڈارہی نہیں تھی۔ لبرلز اور آزاد خیال بے شرموں پر تنقید کرتے ہوئے ہم اری ماں مر جاتی ہے ۔ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں ، سکولوں کی بچیوں کی ننگی موویز بنانے والے اور انہیں بلیک میل کرنے والوں کو نہ کوئی پوچھتا ہے اور نہ ہی کوئی عدالت سوموٹو لیتی ہے ۔جب مجرم ججہو ں تو انصاف کون فراہم کرئے گا۔ پی ٹی آئی نے ملک کا بیٹا غرق کر دیا ہے ۔سسٹم± تباہ کردیا ہے ۔ بندروں کے ہاتھ میں اقتدار ہے ۔
ملک میں کوئی قانون نہیں±، کوئی ادارہ فنکشنل نہیں ہے ۔ اس نظام سے ملک کی حالت نہیں بدل سکتی۔ ان عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکتا۔ اور نظام کے تحت کوئی ایماندار منتحب نہیںہو سکتا۔ لہٰذا اس گلے سڑے نظام کو اٹھا کر پھینک دینا چاہئے۔ ملک صدرارتی نظام کیطرف بڑھ رھا ہے ۔
پہلی حکومت ہے جو گ±ردیوارے اور مندر بنا رہی ہے ۔ دھڑلے سے قادیانیوں کو سپورٹ کر رہی ہے ۔ نظریاتی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے ۔
پی ٹی آئی کے مطابق ن لیگ اور پی پی کرپٹ مافیا ہیں ۔ پی ٹی آئی کے وزراءکی کرپشن کے سکینڈلز کے بعد عوام پریشان ہیں ۔ عوام کو سوچنا چاہئے کہ صرف ایک آپشن ہی جماعت اسلامی بچی ہے جو ایماندار، دیانتدار اور محب وطن، نظریاتی لوگ ہیں ۔ جو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔
٭٭٭