کامل احمر
امریکہ میں انقلاب بپا ہے لیکن انقلاب لانے کا انداز دنیا میں بپا ہونے والے انقلابوں سے بہت مختلف ہے ہم اسے انقلاب نہیں کہہ سکتے کہ یہ افراتفری اور غلط سمت میں غلط ایجنڈے پر قائم ہے اور انقلاب کیلئے جن عناصر کی ضرورت ہے وہ سرے سے نہیں ہیں۔ امریکہ میں پہلے انقلاب آچکے ہیں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے کالے امریکن کو ساتھ لے کر امن پسند طریقے سے جگایا اور اپنی جان کی قربانی دے کر امر بن گیا لیکن کیا کالے امریکن نے اس پیغام کو زندہ رکھا؟ کیا انہوں نے اپنی زندگی کو بہتر بنایا آزادی ملنے کے بعد؟ ہم کہینگے ان میں سے اکثریت نے اپنے نفس کی غلامی کی اور گوروں کو دیئے گئے موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھایا ڈاکٹر کنگ اور مالکم ایکس کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ لیڈری کا فقدان ہو گیا اور جن کالے امریکن نے آزادی کا فائدہ اٹھا کر ہر فیلڈمیں اپنا لوہا منوا لیا امریکہ کے دس بڑے دماغی سرجنوں میں کالے امریکن سرجنوں کا نام آتا ہے۔ سب سے پہلی کالی امریکن خاتون الیکسا کناڈی کو امریکہ کی پہلی خاتون سرجن ہونے کا بھی اعزاز ہے اسی طرح ٹرمپ کابینہ میں شامل سرجن بین کارسن کا نام بھی آتا ہے کھیلوں میں جو بھی نامی گرامی ہیں ایک لا محدود فہرست میں افریقن امریکن ہی ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ امریکہ میں کالوں کےساتھ تعصب رکھا گیا غلط ہوگا اور ان کو آگے بڑھانے میں گوروں کا ہی بڑا ہاتھ ہے۔ مشہور اداکار جن وین نے ایک انٹرویو میں کہا تھا میں کالوں پر گوروں کی فوقیت پر یقین رکھتا ہوں جب تک کالے تعلیم یافتہ نہ ہو جائیں اور ذمہ داری لینے کے قابل نہ ہو جائیں میں غیر ذمہ دار لوگوں کو انصاف کی ذمہ داری نہیں دے سکتا۔
آپ اسے تعصب کے پیرائے میں لے سکتے ہیں لیکن اس کا کہنا یہی تھا کہ ایک تعلیم یافتہ پر جاہل کو ترجیح نہیں دی جا سکتی ہے جیسا کہ پاکستان میں بھٹو صاحب نے کہا تھا اور آج بھی وہی ہو رہا ہے کہ میرٹ پر لوگوں کو داخلے، ملازمت اور ترقی نہیں دی گئی نتیجہ یہ کہ سینکڑوں پائلٹ جعلی ڈگری اور اہلیت کے بغیر ہیں پاکستانی اب پی آئی سے سفر کرنے سے پرہیز کرینگے۔ یہی حال دوسرے شعبوں میں ہے اور پچھلے 70 سالوں سے نا اہلیت سر چڑھ کر بول رہی ہے اور اب امریکہ میں بالخصوص جن اداروں (نیویارک سٹی ٹرانزٹ) بالخصوص میں اکثریت نا اہل لوگوں کی ہے جو اقرباءپرست بھی ہیں اور دوسری اقلیتوں کو بھی نظر انداز کرتے ہیں ایک افسوسناک واقع کا سہارا لے کر آج گورے امریکن کی اکثریت احتجاج کر رہی ہے وہ قطعی غلط ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 20 کروڑ ڈالر کے نوٹ پر وہ کسی کالے امریکن کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں یہ کام ٹرمپ کی صدارت کے بعد ہوگا کہ نوٹ پر ہیریٹ سٹیمن نامی خاتون کی تصویر ہوگی۔ واشنگٹن، لنکن، رابرٹ موسز کے نام کو اور مجسموں کو ہٹایا جا رہا ہے لنکن کا مجسمہ زد میں آچکا ہے۔ احتجاج جاری ہے سیاستدان جو ڈیمو کریٹ ہیں یا تو خاموش ہےں یا پھر احتجاج کرنے والوں کےساتھ ہیں اور یہی سب بھوکے ننگے نہیں ہیں مالی طور پر بھی خود کفیل ہیں یہ دولت مند لوگوں کی اولادیں ہیں ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ جو بھی فیڈریٹ کا حامی یا شامل تھا اس کے نام کو تاریخ اور زمین سے صاف کر دیا جائے ان کے نزدیک ملک میںد رپیش مسائل اہمیت نہیں رکھتے۔ مثلاً اعلیٰ تعلیم، اچھی ملازمتیں، تنخواہیں، دوائیں اور علاج، پنشن، ٹیلیفون سے منسلک ملازمتوں کی برآمدگی، ٹیکسز، کرپشن، لابنگ ایک تفصیل ہے کہ ایک مڈل کلاس امریکن ہر طرح سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ امریکہ نے جنگیں لڑ لڑ کر ملک کو کنگال کر دیا ہے ہر امریکی مقروض ہے ہر امریکی اپنی اامدنی سے کہیں زیادہ کریڈٹ کارڈ پر زندگی گزارتا ہے۔ ایک وکیل، ڈاکٹر، نرس، ڈینٹسٹ (دندان ساز) فارماسسٹ، تعلیم مکمل ہونے کے بعد 200 ہزار سے 400 ہزار کا مقروض ہوتا ہے۔ ہر طالبعلم کو قرض کی سہولت کےساتھ کریڈٹ کارڈ بھی دیا جاتا ہے کہ موج کرو، تمہاری زندگی تمہارا مستقبل رہن رکھ لیا گیاہے۔ بنکاری نظام اور کریڈٹ نظام ہندوستان میں سود خور بنیئے کی مانند ہے آپ کا کریڈٹ خراب بھی ہے تو مرسیڈیز کار آپ کو قرض پر لیکن 20 سے 25 فیصدی سود پر بہت آسانی سے ملتی ہے اور خریدنےو الا شوق پورا کر لیتا ہے۔ امریکن کی نئی قوم بے فکر قوم ہے اور سست اور کاہل کو اب ہر کام آئی فون سے کرتی ہے ابر اور ایمازون کے مزے ہی مزے ایک نیا معاشرہ تشکیل پا چکا ہے۔
اور حالیہ وائرس نے جو تباہی دنیا بھر میں مچائی ہے وہ سامنے ہے پاکستان میں چار ہزار اموات پر عمران کے دشمن واویلا کر رہے ہیں اور جبکہ آبادی بیس کروڑ ہے اور امریکہ کی 33 کروڑ کی آبادی میں ایک سو 27 ہزار اموات ہو چکی ہیں اور سلسلہ جاری ہے لیکن کوئی واویلا نہیں اتنی بڑی تعداد وائرس کی نذر ہو گئی لیکن سیاستدانوں کی حماقت کو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ دنیا کے ہر ملک میں آنے والا وقت نہایت ہی خراب ہے لوگوں کی بے روزگاری کا بحران پیدا ہو رہا ہے میڈیا جو امریکہ کا ہے وہی پاکستان کا ہے لوگوں کی توجہ اصل مقصد سے ہٹا کر اپنے ایجنڈے پر لاﺅ اور وہ کامیاب ہیں۔ پول آنا شروع ہو گئے ہیں فلاریڈہ جو ریپبلکن ریاست ہے میں پول کہہ رہا ہے بائیڈن کو ٹرمپ پر فوقیت حاصل ہے نو پوائنٹ کی ٹرمپ کا حامی میڈیا صرف ایک پوائنٹ بتا رہا ہے جھوٹ یا سچ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ اس سے پہلے ہیلری بھی ٹرمپ سے آگے تھی یہ پول بھی امریکہ کا بزنس ہے دوسرے بزنس کی طرح جس میں عوام کیلئے کوئی فائدے کی باد نہیں بس یہ درست ہے کہ پولیس کو بہتر ٹریننگ کی ضرورت ہے اپنے غصہ کو ختم کر کے ملزم کےساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنے کی ضرورت ہے اور عوام کو بھی بالخصوص کالے امریکن کو آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ قانون سب کےلئے برابر ہے جہاں ہم یہ کہینگے عدالت میں جج پر ہے کالے جج اور گورے جج پر ہے وہ ایکا چھا امریکن بن کر فیصلہ کرتا ہے ہم کورٹ کے اندر کالے اور گورے ملزمان کو ایک ہی جرم میں مختلف سزاﺅں کو دیکھنے کے بھی گواہ ہیں معاشرے میں جو جوان ہیں انہیں گھروں سے کوئی تربیت نہیں اسکول میں کوئی اصلاح نہیں۔ اور نصاب میں شامل بہت سے غیر ضروری کورس پھر اچھے کالجوں میں داخلے کی شرائط جن میں ایکسٹرا چیزیں بھی شامل ہیں بے حد غلط ہیں بچوں کیلئے مشکل سے مشکل حالات پیدا کر دیئے گئے یہں کہ کالے امریکن کے بچوں کیلئے تعلیم میں آگے بڑھنا مشکل ہے!!!
٭٭٭