مولانا طارق جمیل سے سوال!!!

0
170
کامل احمر

کامل احمر

پچھلے ہفتہ ہم ٹی وی نے مولانا طارق جمیل کو بلا کر اپنے دوسرے ہمنوا میڈیا کے اینکر کو بلا کر غیر مشروط طور پر ان سے معافی منگوا کر خود کو صادق امین اور اسلام کا علمبردار ثابت کر دیا۔ ٹی وی مالکان کی نظروں میں سب سے زیادہ چہکنے والا دنیا ٹی وی کا اینکر کامران شاہد تھا جس نے مولانا کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے مولانا پر الزام لگایا کہ انہوں نے بائیس کروڑ عوام کو جھوٹا اور بے ایمان کہا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی اجتماعی دعا اور اس سے پہلے کہے گئے کلمات پر عبدالمالک (ہم ٹی وی) نے بساط ڈالی اور کھیلنے کیلئے ایک شرابی مذہبی پیشوا اور دوسرے اینکرز کو بلوا کر گھوڑوں اور پیدلوں تلے مولانا کو روند ڈالا۔ ایک بار پھر ہمیں میڈیا سے مات ہو گئی ان کی گندی سوچ جو وہ اپنے صبح و دوپہر اور رات کے پروگراموں میں پرچار کرتے ہیں اور یکسر بھول جاتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے اور مسلمان بھی ہیں اور ان پر معاشرے کو صاف ستھرا بنانے کی ذمہ داری بھی ہے لیکن وہ معاشرے کو داغدار بنا رہے ہیں پہلے ہم مولانا طارق جمیل کا متن بتاتے چلیں جو یہ تھا!1۔ میری قوم جھوٹ بولنا چھوڑ دے۔2۔ میری قوم بددیانتی چھوڑ دے۔ 3۔ میری قوم بے حیائی چھوڑ دے۔ انہوں نے شروع میں کہا کہ بائیس کروڑ میں کتنے سچے اور دیانتدار ہیں میری قوم کی بیٹی کو کون نچا رہا ہے، کون ننگا کر رہا ہے، حیا کو کس نے داغدار کیا ہے، ان کے کپڑے لباس کون مختصر کر رہا ہے۔ کامران شاہد نے کہا کہ بائیس کروڑ عوام جھوٹ بددیانت ہیں، یہ صحافت کےساتھ بددیانتی کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ صرف چند لمحوں کے بعد کس طرح ایک اینکر (صحافی نما) آکر جھوٹ بولتا ہے الفاظ بدلتا ہے اور عوام جو مولانا کو نہیں سن سکے ہیں اس کے جھانسے میں آجاتے ہیں مولانا طارق جمیل نے سو فیصدی عوام کو میڈیا کا بدنما داغدار غیر اسلامی غیر اخلاقی چہرہ دکھا کر بہت سوں کی سوچ اور حق کا ساتھ دیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ہر طرف اسلام ہو مساجد ہوں، حضور اکرمﷺ کی پیدائش کا دن بلکہ پورا مہینہ احترام سے منایا جائے وہاں ایسی خرافات جس میں میڈیا صبح کے پروگرام میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بے ہودہ لباس پہنا کر نچواتا ہوا دکھائے ایسے میڈیا پر جہاں ڈراموں میں صرف 10 فیصدی اشرفیہ کا بدنما چہرہ اور رنگ رلیاں دکھائی جائیں آپ کیا نام دینگے؟ایک زمانہ تھا جب لوگ فلموں اور ان سے جُڑے ہوئے لوگوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن یہی لوگ معاشرے کو سدھارنے اور بگڑنے سے بچانے، غریبوں پر مالداروں کا ظلم اور زمیندار کی اجارہ داری جو کسانوں پر تھی کو فلموں کے ذریعے اُجاگر کرتے تھے یقیناً ناچ گانا تھا لیکن ایسا نہیں کہ دیکھنے والا شہوت کا خیال لائے یہ بات 60ءکی دہائی تک رہی اور اس کے بعد فلموں نے لوگوں کو غلط سوچ دینا شروع کی ہر چیز کا ستیا ناس کر دیا گیا، دھیرے دھیرے کوا چلا ہنس کی چال، کے بقول اپنا چہرہ مسخ کر لیا گیا۔ ہالی ووڈ کی نقل کر کے لیکن بھول گئے کہ ہالی ووڈ آج بھی معاشرے کی سچی تصویر پیش کرتا ہے (کامک کرداروں کے علاوہ)جنرل پرویز مشرف پر الزام کہ انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کی شروعات کی غلط ہے ایسا تو ہونا ہی تھا کہ دنیا کے ہر ملک میں یہ میڈیا جنم لے رہا تھا مسئلہ یہ ہو گیا کہ شروع میں جیو کی اجارہ داری رہی لیکن پھر شکیل الرحمن نے رخ بدل لیا، غیر جانبداری جو میڈیا کا اصول ہونا چاہیے تھا جانب داری اختیار کی دوسرے چینلا ٓئے تو مقابلہ ہوا لیکن کون عوام کو اپنی طرف کھینچے اور تجربہ ہونا شروع ہو گئے۔ خوبصورت لڑکیوں کو اینکر کی شکل دے کر اور شانوں تک ان کے بال کٹوا کر ان کے جسم کا جگرافیہ دیدہ زیب کر کے لانے کا دور شروع ہو گیا۔ یہ اینکر چونکہ پیسے اور شہرت کیلئے کام کرتی ہیں اور پہلے اکثریت ماڈلز کی تھی لہٰذا انہوں نے پس پردہ پروڈیوسر کی ہر بات سنی، پروڈیوسر پر یہ دباﺅ کہ ریٹنگ اوپر جانی چاہیے اس ضمن میں بڑے بڑے مداری لڑکے لڑکیوں خاصے سے باہر خود بھی اور میزبانوں کو بھی اپنے ڈھنگ میں رنگنے لگیں۔ اس ضمن میں شائستہ لودھی اس کا بھائی ساحر لودھی فرح سعدیہ، ندا یاسر، ثروت وسیم، اور مردوں میں فہد مصطفی عامر لیاقت نے کافی نام کمایا۔ ان کے پروگراموں میں ناچنا گانا عام ہوا فہد جو ایک بہترین اداکار تھا پیسے کیلئے اپنی اوقات بھول کر کہیں کا نہ رہا، پھر مہوش حیات جس نے اس کےساتھ ایکسٹرا ان لاءمیں خوبصورت اداکاری کی اسے بھی شہہ ملگ ئی ہم ٹی وی نے ہاتھوں ہاتھ ان سب کی پذیرائی کی سلطانہ باجی جنہیں آپ اداکاراﺅں کی نائکہ کہہ سکتے ہیں یقیناً ڈراموں کو فروغ دیا لیکن بدنما چہرہ دکھا کر معاشرے کا وہ کوئین بن گئیں۔ ادھر اے آر وائی نے بھی پر نکالنا شروع کئے سونے کے کاروبار سے نکل کر ڈرامے اور فلمیں اور اسپورٹس (سٹے باز) کو گلے لگا جہاں مال ہی مال ہے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ ہر کسی نے دولت کو طاقت بنا کر من مانی کی تو اگر مولانا طارق جمیل نے سچ کا آئینہ دکھا دیا تو اس پر شور شرابہ کیوں سب سے زیادہ عبدالمالک جو ایک عورت کےساتھ تصویر سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے نے ہم ٹی وی کو پوتر بنانے کیلئے سازشی طور پر مولانا کو گھسیٹا دوسری جانب حامد میر اور کامران شاہد نے مولانا پر غصہ نکال کر الزام اپنے سر لے لیا۔ مولانا طارق جمیل جن کی ہر کوئی عزت کرتا ہے انہوں نے جھوٹوں اور غدار میڈیا سے معافی مانگ کر سرینڈر کر لیا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیا انہوں نے حضرت علیؓ کے قول کو تقویت دی ہے؟ معافی مانگنا بہادری، معاف کرنا طاقتوری، بھلا دینا خوشی کی علامت ہے، یا معاف کر دینا بہترین انتقام ہے لیکن حضرت علیؓ نے یہ بھی کہا ہے کہ سونے کو آگ سے پرکھا جاتا ہے، کسی کو شکست دینے کا اچھا طریقہ نرمی سے پیش آنا ہے اور یہ بھی کہ میں اپنی خاموشی سے کبھی شرمسار نہیں ہوا جتنا خطاب سے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here