طاعون یا وبائ!!!

0
728
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

قارئین ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے یہ بات تو سائنس سے بھی ثابت ہے اور ہمارے مذہب اسلام میں بھی یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی ہے کہ انسان کو اس کے بُرے اعمال کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی دیتے ہیں ، مشہور مثال ہے کہ” جیسا کرو گے ویسا بھروکے“ یہ تو انسان کا انسان کے ساتھ معاملہ ٹہرا لیکن کچھ معاملات براہ راست اللہ تعالیٰ سے بھی جڑے ہوتے ہیں جب انسان اپنے آپ کو اعلیٰ و برتر سمجھنے میں آخری حد سے تجاوز کرتا ہے تو پھر ایک” بے آواز لاٹھی “حرکت میں آتی ہے جوکہ ایسے سرکشوں کا قلع قمع کرتی ہے، میرے اس جملے سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ کورونا سے مرنے والے سرکش تھے ،”بے شک اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے “ آج کے کالم میں ہم کورونا وائرس کا ماضی کے حوالے سے موازنہ بھی کریں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ علم نجوم اس کے متعلق کیا پیشگوئی کر رہا ہے ۔ڈاکٹر عادل ازہری نے اپنی کتاب میں طاعون کے مرض کو خوردبینی جراثیم کا نام دیا ہے جیسے کہ آج کل کرونا وائرس ہے جوکہ تمام نظروں سے نظر نہیں آتا ، رسول پاک ﷺ نے طاعون کو ایک بڑا عذاب قرار دیا ہے جوکہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر آیا تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسی طرح ان لوگوں پر عذاب مسلط ہوا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ، آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر تمھیں ایسی بیماری آئے تو اپنے آپ کو اس طرح جام کر لو کہ گھر سے باہر تک نہ نکلو اور ایک شہر سے دوسر ے شہر میں ہرگز ہجرت مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ طاعون یا وبا کی صورت میں عذاب بھیجتا ہے، بے شک وہ ہی بچانے والا ہے ، قرآن پاک میں صاف لکھا ہے کہ طاعون سے مرنا ہر مسلمان کے لیے اللہ کی راہ میں جان دینا ہے ، طاعون ہوا میں ہوتا ہے ، اس لیے آگ کی طرح پھیلتا ہے ، یہ کسی بھی وقت کسی بھی زمانے میں پیدا ہو سکتا ہے لیکن عام طور پر گرمیوں کے خاتمہ پر شروع ہوتا ہے ، سرد موسم میں اگرچہ گرمیوں میں کمی آتی ہے ، یادر ہے کہ کرونا وائرس جیسی بیماریاں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی اس وائرس کو ختم کر سکتا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف دنیا والوں پر عذاب ہے ، آج دنیا بھر میں ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو بے ایمانی، اخلاقی بے قدری ، بے حیائی ،ناجائز جنسی تعلقات کا ہونا ، دھوکہ ، فریب ، وعدہ خلافی ، بلیک میلنگ غرض کہ ہر جانب افرا تفری کا عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی بھی ہدایات حضور اکرم ﷺ کے ذریعے قرآن پاک میں دی ہیں ہم جانتے ہوئے بھی اُن پر عمل نہیںکر رہے ، طب نبویﷺ کے مطابق بے شک کرونا وائرس انسانیت پر اُن کے اعمال کی وجہ سے عذاب ہے لیکن اس عذاب پر اگر کوئی یقین رکھتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور اپنی روزمرہ زندگی کو حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطابق گزارنے کا اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے اور اپنے اعمال سے ان باتوں کو ثابت کرے تو اللہ تعالیٰ عذاب ٹال بھی سکتا ہے ۔یاد رہے کہ یہ عذاب قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت ہے کیونکہ ہر انسان خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، اس وائرس کے آگے بے بس ہے (طب نبوی ﷺ)میں اس کا ایک چھوٹا سا فارمولا بھی ہے بعد میں آسمانی ستاروں سے بھی اس موضوع پر بات ہوگی ، فارمولا آزمایا ہوا ہے کہ ہر روز صبح نیم گرم ایک گلاس پانی میں شہد ملا کر کلونجی کے 12دانوں کونہار منہ اچھی طرح چبا کر کھانے کی عادت اپنائی جائے، اُسی طرح رات کو پانی یا نیم گرم دودھ کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا جا سکتا ہے، دن میں نیم گرم پانی میں لیموں ڈال کر پینے سے بھی آفاقہ ہوتا ہے ، علامہ تمیمی نے اپنی کتاب ”مادہ القامر“میں لکھا ہے کہ سال میں ایک وقت جب ستارہ ”ثریا“طلوع ہو کر طلوع فجر کے وقت ڈوب جائے ، دوسرا وقت وہ جب ستارہ ”ثریا“مشرقی طلوع ہو جبکہ سورج طلوع ہونے والا ہو ، اس وقت پر نزول سے گزرے اگر ستاروں کا حساب لگائیں تو کرونا وائرس کے عذاب کا سلسلہ 15مئی تک بڑی شدت سے رہے گا ، ہم سب کو بہت احتیاط کرنی ہے اور گھروں میں اپنے آپ کو محدود کرنا ہے ، حضور اکرم ﷺ نے بھی اس عذابی دور میں کاشت کاری ، فصل کاٹنے اور پھلوں کی خریداری کیلئے منع فرمایا ہے ، مئی کے15، 16اور 17کے بعد ثریا (ستارہ)طلوع ہونے اور زوال ہونے کے بعد کے وقفے میں دنیا سے تمام بیماریوں کے خاتمے کا امکان ہے (آگے اللہ بہتر جانتا ہے ہم صرف ماضی کے وبائی عذاب کے حساب کو سامنے رکھ کر بات کر سکتے ہیں )جس طرح پہلے کی قوموں پر طاعون یا وبا آنے پر انھوں نے اپنے آپ کو محدود کر لیا تھا اور اپنی اصلاح کی اور اللہ تعالیٰ سے دل سے معافی مانگی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری معافی قبول کرلی تو بہتر ی آ سکتی ہے ورنہ جس طرح ہماری آج کی نسل چل رہی ہے کہ جان بچانے کیلئے مافی اور پھر دوبارہ پہلے والی حرکات شروع تو بھائیوں اللہ تعالیٰ ہی دلوں کے حال خوب جانتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ سے کیے وعدوں میں سچائی ضرور ی ہے ، یاد رہے کہ ثریا کے طلوع ہوتے ہی ہم اللہ تعالیٰ سے امید کرتے ہیں کہ تمام دنیا کے مصائب ختم ہو جائیں گے ، مجھے پورا یقین ہے کہ کچھ لوگ اسے مذاق سمجھیں گے لیکن سچ یہی ہے کہ ہم اپنے درمیان بے شمار لوگوں کو دیکھتے ہیں جنھوں نے لوگوں سے اُدھار رقم لی اور واپس نہیں کی ، بے شمار لوگ ہیں جنھوں نے گناہوں کی انتہا کر دی ،اپنے ایمان کو فروخت کیا ، دوسروں کو اپنوں سے کمتر سمجھا ، آج اچانک دولت آجانے پر غریب دوستوں ، رشتے داروں کو بھول گئے ، مال میں حرام کا منافع کمایا اور کما رہے ہیں ، نماز بھی پڑھتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ بھی دیتے ہیں ، خود نمائی عروج پر ہے اگر ہم سب اپنی برائیوں ، گناہوں پر معافی صدق دل سے نہیں مانگیں گے تو یہ وائرس سب کو بہا لے جائے گا ، آیئے مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بیماری سے نجات دلائے ۔موت برحق ضرور ہے لیکن ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے ایسی موت سے ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے جس سے آخری رسومات بھی بمشکل پوری ہو سکیں اور عزیز و اقارب بھی شرکت کرنے سے باز رہیں۔(استغفار)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here