مجیب ایس لودھی، نیویارک
پاکستان میں جمہوریت کی پہچان ذوالفقار علی بھٹو تھے ، ان کے دور میں پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کو آزادی حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا کو سیاسی میدان ملتا تھا اوراسلامی جمعیت طلبا کا رکن ہو کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرتے تھے ، پیپلز سٹوڈنٹ ، پیپلزپارٹی میں جاتے تھے ، اسی طرح لبرلز بھی اپنی من پسند جماعت میں جاتے تھے، کالجز اور یونیورسٹیوں کی فیکٹریوں سے فارغ التحصیل طلبا کا سیاسی مستقبل تابناک ہوتا تھا،جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے درجنوں رہنماﺅں نے سیاست کا سفر یونیورسٹیوں اور کالجز کی سیڑھیوں سے شروع کیا اور پھر ایوانوں تک جاپہنچے لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکا ، 71کی جنگ میں بھارت سے ناکامی اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد پڑھے لکھے طبقوں خاص طور پر صحافی برادری میں فوج پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور فوجی تھنک ٹینکس کویہ بات انتہائی ناگوار گزری اور ضیاالحق نے جمہوریت پر شپ خون مارتے ہوئے آمریت کا بگل بجا دیا، اس کے بعد شعرا حضرات ، ادیبوں نے آمریت کو اپنے الفاظ سے خوب ڈانٹ پلائی ، ”چلی ہے رسم کہ اب کوئی نہ سر اٹھا کے چلے“ جیسی سیکڑوں نظموں نے آمریت کو خوب چہرہ دکھایا ، فوج نے رفتہ رفتہ طلبا تنظیموں کو ختم کرنا شروع کیا جس میں مرحوم ضیا الحق کا بڑاہاتھ تھا ، آج بھی چند بچے کچے بزرگ سیاستدان نظر آتے ہیں ، فوج نے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک 60فیصد سے 70فیصد پاکستان کی سیاست پر قبضہ رکھا ، صرف 5فیصد سے 10فیصد سیاسی دور رہا جبکہ 20سے 25فیصد فوج پردے کے پیچھے رہی جس کی وجہ سے آج پاکستان میں ملک چلانے کے لیے سیاستدانوں کا شدید فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ فوج کی فیکٹریوں میں تیار ہو کر ملک سنبھالنے والے جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں جن میں نواز شریف ہوں یا آصف زرداری یا عمران خان کے علاوہ اگر پاکستان کی سیاست میں قائداعظم اور لیاقت علی مرحوم کے بعد اگر کوئی سیاسی لیڈر آئے ہیں تو وہ ذوالفقار علی بھٹو یا بینظیر بھٹو تھے جبکہ جاوید ہاشمی ، شیخ رشید ، حسین حقانی ،احسن اقبال ، مشاہد اللہ ، فخر امام ، الطاف حسین کے علاوہ چند دیگر لوگ کالجز ، یونیورسٹیوں سے ضرور آئے لیکن وہ جن سیاسی پارٹیوں میں بھی تھے انہیں آزادی سے پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا جبکہ فوج کے ایک مخصوص ٹولے نے اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں رکھ کر پاکستان کی بنیادوں کو سخت ترین کمزور کیا جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے ، فوج نے اقتدار میں رہ کر محب وطنی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ پاکستان کے مستقبل سے دشمنی کی ہے ، اس کی وجہ سے آج پاکستان میں سیاسی لیڈرشپ کا شدید فقدان ہے ، فوج اقتدارمیں آنے سے ڈرتی ہے کہ دنیا بھرمیں پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے اور خود اپنی عوام میں نفرت پیدا ہوتی ہے جس طرح جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا ، آج پاکستان میں کوئی بھی پارٹی مکمل طور پر اقتدار کو نہیں سنبھال سکتی ، فوج کو بھی بزنس مینوں کے ذریعہ کبھی اورسیز پاکستانیوں کے ذریعہ اور کبھی کھلاڑیوں کے ذریعہ حکومت تشکیل دینی پڑتی ہے جبکہ اصل باگ دوڑ فوج کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بنیادیں کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہیں ، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیاسی کھٹن کا نتیجہ انقلاب ہے جو فوج کو بہا کر لے جائے گا اور پھر اگر پاکستان میں کچھ بچا تو پھر اسے ہم نیا پاکستان کہہ سکتے ہیں ،آج ملکی حالات اس بات کی صاف عکاسی کر تے دکھائی دے رہے ہیں کہ عوام جلد سڑکوں پر لوٹ مار کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے ، مہینوں سے لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے ، حکومت منتخب افراد کو 12-12ہزار روپے دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئی ہے اور سونے پر سہاگہ کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکمشت 30روپے اضافہ کر کے پیٹرول کمپنیوں کو راتوں رات کھربوں کا منافع پہنچا دیا جبکہ پیٹرول سستا کرنے کی بات ہوئی تو حکومت نے بتایا کہ ہمارے پاس پرانی قیمتوں پر تیل کا سٹاک موجود ہے جب تک وہ ختم نہیں ہوگا ، کم قیمت پر تیل فروخت نہیں کر سکتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سستی قیمت پر خریدے گئے تیل کے سٹاک کو مہنگے داموں کیوں فروخت کر دیا گیا ؟اب قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ، ڈر ہے کسی دن ہم امریکہ میں لاک ڈاﺅن کے دوران لوٹ مار کا منظر پاکستان کی گلی، کوچوں میں بھی نہ دیکھ لیں ، ہم پاک فوج کو خبردار کرتے ہیں کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی یونینز کے دروازے کھول دے کیونکہ کالج اور یونیورسٹیوں کی فیکٹریوں سے نکلے طلبا ہی اصل سیاسی اقتدار کے حقدار ہیں ، جی ایچ کیو سے تیار کردہ سیاسی چوزے پاکستان کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکتے ہیں ، فوج کو چاہئے وہ صرف ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر توجہ دیں ورنہ جس انقلاب کو میں دیکھ رہا ہوں اسے فوج نہیں روک سکے گی ۔
٭٭٭