”معاشی کورونا بھی سراُٹھانے کو “

0
136
مجیب ایس لودھی

مجیب ایس لودھی، نیویارک

کورونا وائرس جہاں انسانی زندگیوں کے لیے خطرے کی بڑی علامت سمجھی جاتی ہے ، اس کے ساتھ اس وائرس نے عالمی معیشت پر بھی بُرے اثرات مرتب کیے ہیں ، ماہرین اس وائرس کو امریکہ میں مزید مہلک ہوتا دیکھ رہے ہیں جس سے نہ صرف متاثرین کی بڑی تعداد سامنے آ ئے گی بلکہ اس وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں بھی اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ، امریکہ میں آنے والی معاشی تباہی کا اندازہ چین کی تباہ حال معیشت سے ضرور لگایا جا سکتا ہے جہاں کورونا وائرس سے فیکٹریز کی پیداوار میں 13.5 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ، اسی طرح سیل میں 20.5فیصد تک گراوٹ آئی جبکہ گھروں کی فروخت میں بھی 34.7فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور یہ وہ معیشت تھی جوکہ 9.4فیصد سالانہ تک ترقی کر رہی تھی ، جرمنی بینک کے مطابق چین کی سالانہ جی ڈی پی گروتھ میں 32فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور بینک کی پیشگوئی کے مطابق یورپ کی معیشت میں 24فیصد تک گراوٹ آئے گی اور امریکہ کی معیشت میں مجموعی طور پر 13فیصد تک نیچے آئے گی ۔امریکہ کے سماجی طبقے کی بات کی جائے تو یہاں دنیا بھر سے تارکین کی بڑی تعداد آباد ہے جن میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں زیادہ تر ایشیائی تارکین شامل ہیں لیکن یہاں کا آبائی طبقہ گورے اورکالے جنھوں نے آج تک کبھی غربت کا منہ نہیں دیکھا اور معاشی تنگ دستی میں زندگی بسر نہیں کی ہے وہ اس بحران سے کس طرح نمٹیں گے ، ایک انداز ے کے مطابق معاشی بحران کی وجہ سے امریکی شہریوں کی بڑی تعداد ذہنی دباﺅ کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہو سکتی ہے کیونکہ وہ زندگی میں کبھی ایسے حالات سے نہیں گزرے ہیں جہاں تک ایشیائی تارکین کا تعلق ہے وہ تو روکھی سوکھی کھا کر بھی گزر بسر کرنا جانتے ہیں ،اس لیے ایشیائی تارکین کے لیے معاشی ابتری زیادہ متاثر کن نہیں ہوگی ۔وائٹ ہاﺅس میں بریفنگ کے دوران ڈاکٹر ڈی بورہ بریکس نے اپنی بریفنگ کے دوران بتایا کہ 30سال تک کے نوجوانوں میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے لیکن زیادہ عمر کے افراد میں یہ وائرس بہت مہلک ثابت ہوا ہے ، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ امریکی شہریوں کو کورونا وائرس کے بعد کی صورتحال کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے خود کو اس کے لیے تیار رکھنا ہوگا یعنی کورونا وائرس کے خاتمے یا بحالی کے بعد ملک میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوگا کیونکہ معیشت میں بہت حد تک گراوٹ آئے گی ، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں آباد مختلف ممالک کے تارکین کے معیاز زندگی بھی نیچے آئے گا ، قرض کی مانگ میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے بینکوں میں سود کی شرح بھی بہت حد تک بڑھ جائے گی ، ہم سب کو کورونا وئرس کے حال اور مستقبل دونوں صورتحال کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے ،ملک میں وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے مریض ابھی تک سامنے نہیں آ سکے ہیں ۔اقوام متحدہ کی تجارت برائے ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) کے رچرڈ کوزول رائٹ نے واضح کیا کہ رواں برس عالمی معیشت کو 10 کھرب سے 20 کھرب ڈالر کے درمیان نقصان پہنچ سکتا ہے مجوزہ نقصان اس سے بھی بڑھ سکتا ہے ،رچرڈ کوزول رائٹ نے کہا کہ جن ممالک کی معیشت بڑی حد تک اشیا کی پیداوار پر انحصار کرتی ہیں انہیں معاشی دباو¿ کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ معاشی سست روی سے ان کی مصنوعات کی طلب میں کمی واقع ہوجائے گی ،انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر یورپی یونین خصوصی طورپر جرمنی اور اٹلی رواں سال کساد بازاری کے باعث شدید متاثر ہوں گے۔یو این سی ٹے اے ڈی نے اپنی رپورٹ میں پیشگوئی کی کہ سالانہ گوبل گروتھ میں 2.5 فیصد کمی واقع ہوگئی۔واضح رہے کہ جرمنی میں پیر کی صبح تک کورونا وائرس کے ایک ہزار 112 تصدیق شدہ کیس رپورٹ ہوچکے ہیں تاہم ملک میں ابھی تک انفیکشن سے متعلق اموات کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔مائیکروسوفٹ، ایپل، کار کمپنیوں اور ائیرلائنوں نے کاروبار پر پڑنے والے اثرات سے متعلق خبردار کیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں قابلِ ذکر گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے، بینک آف امریکا نے یورو زون کی بڑھوتری کی پیش گوئی 1 فیصد سے کم کر کے 0.6 فیصد کر دی ہے۔ کریڈٹ سوئس نے اپنی پیشین گوئی 0.9 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد کر دی ہے۔کاروں کی صنعت اپنی پیچیدگی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا سکتی ہے۔ جنوبی کوریا میں موجود کار بنانے والے ہوبئے میں موجود ایک فیکٹری پر انحصار کرتے ہیں اور اب ان کی پیداوار رک چکی ہے۔ یورپ میں موجود کار بنانے والی کمپنیاں شمالی اٹلی میں وباءکی وجہ سے خطرے میں ہیں، کیونکہ ایک پرزہ قرنطیہ کیے جانے والے ایک گاو¿ں میں بنتا تھا۔ یورپی پیداوار پر پوری طرح سے اثرات اگلے ماہ ہی دکھائی دیں گے کیونکہ چین سے سامان پہنچنے میں چار سے پانچ ہفتے لگتے ہیں۔شپنگ، ایک اور صنعت ہے جسے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پچھلا سال عالمی تجارت کے لیے ایک برا سال تھا، جس میں 2009ءکے بعد پہلی مرتبہ عالمی تجارت میں اس قدر گراوٹ آئی تھی، جس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی تجارتی جنگیں اور یورپی معیشت کی سست روی تھی۔ یہ سال مال بردار جہازوں کی صنعت کے حوالے سے بحالی کا سال ہونا تھا، مگر کرونا وائرس کی وجہ سے بہت ساری شپنگ کمپنیوں کا مستقبل داو¿ پر لگ گیا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جن کے پاس کافی پیسہ ہے اس زوال کو سہہ جائیں گی مگر چھوٹی کمپنیاں نہیں۔ کتنی کمپنیاں بچتی ہیں یہ بحران کی طوالت پر منحصر ہے۔
سیاحت کی صنعت کو شاید سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ چینی سیاح نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ سب سے زیادہ خرچ کرنے والے بھی ہیں، 2018ءمیں چینی سیاحوں نے 277.3 ارب ڈالر خرچ کیے جو پوری دنیا میں سیاحت پر خرچ ہونے والی رقم کا 20 فیصد ہے اور امریکی سیاحوں کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ چین جانے والی اور چین سے آنے والی فلائٹس کے کینسل ہونے سے یہ رقم خطرے میں ہے۔ جاپان میں کرونا وائرس کی وجہ ایک ہوٹل دیوالیہ بھی ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں خوف پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر کرنے اور چھٹیوں پر جانے سے بھی گریز کریں گے،سیاحت کا موسم آنے سے پہلے پہلے اگر حکام وبا پر قابو پانے میں ناکام رہے تو اس کے عالمی سیاحت کی صنعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ایئر لائن انڈسٹری کو بھی کافی نقصان پہنچے گا کیونکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ تجارتی سفر بھی متاثر ہو رہا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں اب غیر ضروری سفر کرنے سے منع کر رہی ہیں۔ بہت سارے ملک اب اس لسٹ پر موجود ہیں جہاں غیر ضروری سفر سے گریز کا کہا جا رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here