کامل احمر
آج ایک نوجوان ڈاکٹر نے کورونا کے پھیلاﺅ کو انتظامیہ (حکومت) کی غفلت کو اس جملے سے تعبیر کیا، ہم نے چائنہ اور اٹلی کی چیخوں کو نہیں سنا، ایسا اس کا کہنا تھا اور ہم اس میں مزید اضافہ کر دیں کہ اب بھی نیویارک کے گورنر اور میئر صرف اور صرف پریس کانفرنس کر رہے ہیں،ر وزانہ اس میں وہ اعداد و شمار گنوا رہے ہیں، ہدایت دے رہے ہیں،گورنر نیویارک اینڈریو کیومو پچھلے کئی سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں لیکن اپنی جیب (ریونیو کا ڈالر) سے ایک پائی خرچ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ صبح سے اب تک پیر کے دن ہم ان کے مشوروں اور ٹرمپ سے دوستی کی باتیں بتاتے رہے پچھلے ماہ سے وہ مریضوں کیلئے وینٹی لیٹر کی مانگ کرتے رہے ادھر ہمارے صدر ٹامک ٹوئیاں کرتے رہے۔ ایک وینٹی لیٹر کی قیمت اس وقت 15 ہزار ڈالر تھی اور اب 20 ہزار ڈالر ہے۔ لیکن گورنر کیومو نے یا میئر نیویارک نے اسٹیٹ یا شہر کو لاک ڈاﺅن کرنے کا نہ سوچا نہ ہی کچھ جگہوں پر جہاں وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے کرفیو نہیں لگایا۔ کئی ہفتوں سے پریس کانفرنسوں کا نتیجہ صفر ہے جبکہ صرف نیویارک میں مرنے والوں کی تعداد پورے امریکہ سے آدھی ہے، یعنی مجموعی 2500 اموات کے مقابلے میں آدھی دوسری ریاستوں میں پہلے نمبر پر واشنگٹن اور کیلیفورنیا کا تھا لیکن وہاں کے گورنروں نے سخت احتیاطی تدابیر پر عمل کرواتے ہوئے مزید جانی نقصان سے روک لیا۔ کل ہم نے دیکھا کس طرح کیلیفورنیا کا گورنر ہانگ کانگ سے بہت کچھ لے کر آیا ہے جس کی ضرورت نرسوں، ڈاکٹروں اور مریضون کی ہے لیکن آج دوپہر تک ہسپتال (سٹی ہسپتال) کے ڈاکٹر اور نرسیں سپلائی کیلئے چیخ رہے ہیں ان کے پاس ماسک اور دستانے نہیں ہیں کیومو صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ ایک ہسپتال دوسرے ہسپتال کی ضرورت پوری کرے واہ کیا بات ہے ہمارے گورنر کی اور یہ کس دنیا میں رہتے ہیں ہمیں پاکستان کے سیاستدان یاد آجاتے ہیں بلکہ وہ کرونا کے اس عذاب سے نمٹنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ نیویارک اسٹیٹ ٹیکس ٹول، جرمانے اور قانون کی خلاف ورزی پر ٹکٹوں کی شکل میں ڈالرز وصول کرتی ہے اس سے 2 کروڑ آبادی والے دس ملک خوشحال رہ سکتے ہیں لیکن نیویارک کی بد قسمتی ہے کہ انتظامیہ عوام سے زیادہ اپنے (Pay Check) تنخواہ پر نظر رکھتی ہے ہمیں سب سے زیادہ فکر ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملے کی ہے، خاص کر وہ لوگ جو مریض کے سامنے ہوتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ ایک دشمن کی فوج کرونا وائرس کی شکل میں آپ کے ارد گرد چُھپی ہوئی ہے اور ان سے مقابلے کرنے والے ڈاکٹر، نرسیں، اور فرنٹ عملہ بغیر ہتھیار کے انہیں شکست دینے کیلئے لڑ رہا ہے۔ انجام کیا ہوگا؟ ملاحظہ ہو ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر نے ایک پریس کانفرنس میں پہلے تو جذباتی ہو کر بغیر کسی ڈاکٹر یا مشیر سے مشورے کے بغیر بونگیاں مار دیں کہ 12 اپریل (کرسچین کا مذہبی دن) کو امریکہ معمول کے مطابق کام شروع کر دے گا اور ملاﺅں کی زبان میں کہہ گئے بہت مبارک دن ہے بہت خُوب اور اگر وہ مشورہ بھی کرتے تو اپنے سینئر مشیر اپنے داماد سے کرتے جو امریکہ کی بیرونی پالیسی کو بنا رہے ہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق نہ جانے کیوں ہم جب بھی جیرڈکشنر کو دیکھتے ہیں ہمیں عمران خان کے مشیر زُلفی بخاری یاد ااجاتے ہیں برابری کے لحاظ سے نہیں صرف مشوروں کے لحاظ سے ورنہ زُلفی کشنر کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہیں شکایت دونوں سے ایک ہی ہے کہ ابھی کھیلنے کُودنے کے دن تھے کہاں آگئے سیاست میں۔ ہمارے دوست چودھری اللہ دتہ جن کا تعلق کسان (رینالہ خورد کے پاس پنجاب) بڑی اچھی بات کہی ہے کہ سیاست میں آج زنانیوں کا کھیڈ (کھیل) ہے۔ فیصلہ آپ پر جو پاکستان سےر یٹائرڈ ہو کر حال ہی میں نیویارک آئے ہیں۔
معذرت کہ سنجیدہ کالم کو ہم غیر سنجیدگی کی طرف لے گئے لیکن یہ بھی ٹھیک ہے گھر میں بند کئی دنوں سے ہم بڈھے کیا کر رہے ہیں ہم نے ایک پڑوسی سے پوچھا۔
کیسا وقت گزر رہا ہے کہنے لگے چنگا، سوہنا، بیگم خوش ہیں کہ گھر میں ہوں۔ مسجد نہیں جاتا گھر میں نماز پڑھتا ہوں، پھر ہم نے پوچھا اپنی عادت کے مطابق کچھ پڑھنا، لکھنا ہوتا ہے، جواب تھا، نہیں جی دل ہی نہیں کرتا، لکھنا تو پہلے ہی ختم تھا اور پڑھنا کیا کرنا ہے، ہم نے پھر سوال کیا ٹی وی دیکھتے رہو، ان کا کہنا تھا بیکار ہے دماغ خراب ہو جاتا ہے خوف آتا ہے۔
ان کی اس بات سے ہم اتفاق کرینگے خوف یہی نہیں کہ کروناو ائرس کا اثر نہ ہو، بلکہ آنے والے وقت کا، ہمارے اطالوی دوست کا کہنا تھا کہ امریکہ کی صورتحال 1930ءکی طرح ہو سکتی ہے ہر چند کہ حکومت نے ہر ٹیکس دینےو الے امریکن شہری کو مالی امداد کے چیک بھیجنے کا وعدہ کیا ہے جو اپریل کے تیسرے ہفتے میں ان کے اکاﺅنٹ میں ہونگے اور بیروزگاری کے الاﺅنس میں بھی 400 ڈالر اضافہ کےساتھ ملیں گے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا آج جو لوگ کاروبار بند ہونے سے گھر میں بیٹھے ہیں کیا وہ سب کہ سب کورونا کے خاتمے کے بعد ملازمتوں پر ہونگے نا ممکن ہے تو معاشی بدحالی کےساتھ ساتھ لوگوں کے دماغ یعنی نفسیات پر اثر پڑے گا اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہونگے۔
امریکہ جو ہر بُرے وقت کیلئے تیار رہتا ہے اور اگلے 20 سال کی پلاننگ کرتا ہے تو ہم یہ کیسے مان لیں کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں تھا اور اس نے جنوری میں چین،ا ٹلی اور اسپین کی چیخیں نہیں سنیں اور ابھی بھی گورنرز صدر کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ہسپتال میں سپلائی نہیں کل ہی صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہا گر 100 ہزار افراد جاں بحق ہوتے ہیں تو غنیمت ہے اس بات کو ان کے بزرگ مشیر ڈاکٹر فوسی نے کہا کہ ایسا ممکن ہے ان باتوں سے آپ خود مطلب نکالس کتے ہیں ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیا کی وارننگ اور چیخوں کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے ہمارا دماغ کام نہیں کرتا۔ اسلئے کہ اس کے بعد پورا ملک، پوری دنیا، معاشی بدحالی اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہونے جا رہی ہے تیار رہیے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھئے جس کے ہم عادی ہیں۔
٭٭٭