شبیر گُل
کیا کسی میں ہمت ہے کہ اس وائرس سے لڑ سکے۔یہ وقت آللہ کے آگے جھکنے کا وقت ہے۔اس سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کا وقت ہے۔کرونا وائرس اللہ کا عذاب یا انسان کا امتحان۔ صدیوں پرانی تمثیل، آج کی زندہ حقیقت۔
ہمارے دوست عبدالشکور فرماتے ہیں ۔صدیوں پہلے مچھرنظر آنے والی مخلوقات میں سب سے چھوٹی مخلوق تصور کی جاتی تھی ، ابھی مائیکرو سکوپ ایجاد نہ ہوئی تھی پھر پتا چلا مچھر سے بھی کئی کروڑ گ±نا چھوٹی مخلوق جسے جرثومہ کہتے ہیں ہمارے ارد گِرد زندہ موجود ہے۔انتہائی حقیر اور بہت ہی مختصر زندگی والی یہ مخلوق اللہ کی طرف سے دئیے گئے حیرت انگیز کاموں میں مسلسل مصروف رہتی ہے۔یہ ہوا میں، پانیوں میں اور سانس کی نالیوں میں زندہ رہ کر کیا کچھ کرتی ہے؟اسکا کچھ کچھ اندازہ آج کے دور میں ہونا شروع ہوگیا تھامگر یہ حقیر جرثومہ اپنی تباہ کاریوں میں،زلزلے کے جھٹکوں اورسونامی کی لہروں کو بھی کوسوں پیچھے چھوڑ جائے گا،اس کا کسی کو کچھ بھی اندازہ نہ تھا۔یہ ایک جرثومہ ( کورونا وائیرس)• دنیا کی معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر سکتا ہے۔• متکبر اور سرکش حکمرانوں کو قید کر کے تنہائی میں ڈال سکتا ہے۔• سائنس دانوں کے علمی غرور کو زمیں بوس کر سکتا ہے۔میرے رب کی ان گنت مخلوقات میں سے یہ حقیر کیڑا کبھی خود اتنا طاقتور ہو جائے گا ؟کہ حکمرانوں، سائنس دانوں اور نام نہاد دانشوروں کو اپنی ناک رگڑنے پر مجبور کر دے گا۔ 9/11 نے دنیا کے نقشے کو بدل دیا تھا۔ایک نئی دنیا ا±بھر کر سامنے آچکی تھی۔مگر کیا اللہ کی حقیر ترین مخلوق، ایک ننّا سا جرثومہ ایک بارپھر دنیا کے نقشے کو حتمی طور پر بدلنے جا رہا ہے، اس حیران کن تصور کو آپ کی طرح میں بھی کبھی اپنے ذہن میں جگہ نہ دے پایا تھا۔کل اچانک سورہ بقرہ کی آیتنمبر 26 نظر سے گزری۔یہ آیت ماضی میں ، میں نے بارہا پڑھی تھی، کئی بار صاحبانِ علم سے مفہوم بھی سمجھنا چاہا تھامگر سچی بات ہے کبھی اطمینان نصیب نہ ہوا تھا۔آج میں نے اسے ایک بار پڑھا،دوبارہ اورپھر سہہ بار پڑھا۔اب کی بار یوں لگا جیسے ساری گ±تھیاں سلجھ گئی ہوں جیسے نیوٹن کہ جس نے یوں تو درخت سے گِرتے ہوئے سیب کو کئی بار دیکھا ہو گا مگر جب ایک بار غور سے دیکھنے کا موقع ملا تو چلّا اٹھا” میں نے راز پا لیا، میں نے راز پا لیا“آج اللہ کی سچی کتاب میری آنکھوں کے سامنے اور مجھ سے مخاطب تھی، “ اللہ مچھر یا اس سے حقیر تر مخلوق( کو اپنی طرف سے عطا کردہ بے پناہ قوتوں) کے تذکرے اور اظہار سے ہچکچاتا نہیں، پس وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں وہ ( سائنسی دریافتوں کی عدم موجودگی کے باوجود) ٹھیک طرح جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے سچ بیان ہوا ہے۔البتہ انکار کرنے والے(کنفیوژن پھیلاتے ہوئے) کہتے ہیں،پتہ نہیں اللہ اس (انتہائی حقیر کیڑے) کے تذکرے سے کیا مفہوم ومدعا بیان کرنا چاہتا ہے؟”چودہ سو سال قبل جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں ، بکٹیریا یا وائیرس کے جرثومے کا تصور بھی نا ممکن تھا۔ ک±جا یہ کہ کوئی اس مخلوق کی اثر پذیری، وسعت و پھیلاو ،طاقت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کر سکے۔ میں نے مچھر کی تمثیل والی اس آیت کو ایک بار پھر غور سے پڑھا۔مجھے لگا آیت مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہی ہے۔ “قرآن کو گذشتہ کل کی کتاب سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کرنا۔ یہ کتاب آج کی کتاب بھی ہے اور آنے والے کل کی کتاب بھی،” اس پر غور کی ضرورت ہے۔
پی ٹی آئی کے جاہل عمران خان پر تنقید برداشت نہیں کررہے۔ ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ۔ انکے اور ایم کیو ایم کے فاشسٹ کلچر میں کوئی فرق نہیں۔یہ ایک ایسا کلچر پروان چڑھا دیا گیا ہے جو گالی سے نیچے بات نہیں کرتا۔
بے جا تنقید نہیں ہونی چاہئے لیکن یہ جو ٹائیگرز فورس کا اعلان ہوا ہے۔ ناچا گروپ کو مزید کرپٹ کرنے کی طرف نیا قدم ہے۔پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اور متحدہ کے غنڈے دونوں ایک تصویر کے دو ر±خ ہیں ۔جیسے عمران خان فرعونی ذہنیت رکھتا ہے۔ اس کو وزرا اور کارکن بھی اللہ نے ایسے ہی دیئے ہیں ۔یہ ناچا گروپ رسول اللہ کی گستاخی پر بولتا نہیں۔
غریب قوم کا مہنگائی سے بھُرکس نکال دیا گیا ہے۔ کرونا وائرس ٹیسٹ کے آٹھ سے دس ہزار وصول کئے جارہے ہیں ۔ تبدیلی کے نام پر لوگوں کو ذبیح کیا جارہا ہے۔پوری دنیا میں عوام کو فری ٹیسٹ کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں ۔ سوائے میرے پاکستان کے۔ قوم کو فری ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔
تمام س±پر پاورز بے بس، تمام ٹیکنالوجی بے کار، تمام ایجادات صفر ہیں۔مشکل کی اس گھڑی میں اپنے رب کو منانے اور راضی کرنے کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔تمام مذاہب اللہ کے آگے جھک گئے ہیں ۔اسپین میں بتوں کی پوجا کرنے والے ب±ت توڑ رہے ہیں کہ انہوں نے مشکل کی گھڑی میں ہماری مدد نہیں کی۔ سوشل میڈیا پر جعلی لکھاری، جعلی ڈاکٹرز اپنے بند کمروں میں بیٹھ کر روزانہ نئی نئی ہدایات جاری کر رہے ہیں ۔ یو ایس اے میں ہماری کمیونٹی کے دوست ، اس مشکل گھڑی میں کمیونٹی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
خصوصا اکنا ریلیف کے رضا کار خدمت انسانی میں پیش پیش ہیں ۔ نان سٹاپ گراسری گھروں اور ضرورت مندوں میں پہنچانے کا انتظام دن رات موجود ہے۔ہمارے برانکس کے تین رضاکار کرونا کا شکار ہوچکے ہیں ۔ معوذ صدیقی ، ڈاکٹر مشاہد فاروقی ، برادر مہتاب الدین بھی خدمت انسانی میں پیش پیش رہے۔ اب کرونا وائرس کا شکار ہیں ۔ میں مسلسل تین ویک دن رات گراسری کی تقسیم میں رہا۔ ہڈیوں تک تھکن کے آثار ہیں ۔ پرسوں رات کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوا۔ الحمد للّٰہ اب قدرے بہتر ہوں۔ آپ دوستوں کی دعاو¿ں کی ضرورت ہے۔ اکنا ریلیف کے رضاکار اللہ کے رضاکار ہیں جنہوں نے خوف اور دہشت کے ماحول میں اپنے آپکو اللہ کی مخلوق کے لئے وقف کر رہا ہے۔اللہ ان سب کی خفاظت فرمائے۔ یہ مسلمانوں کا حقیقی چہرہ ہیں ۔ انسانیت کی پہچان ہیں ۔پورے امریکہ میں ریلیف کے کارکنان گھر گھر گراسری پہنچا رہے ہیں ۔ جیسے الخدمت پاکستان کے گلی کوچوں میں مفت کھانا، گراسری ، ماسک ، گلوز تقسیم کررہی ہے۔ قارئین ! یہی وہ لوگ ہیں جن کی اسمبلی میں ایک سیٹ ہے لیکن انہوں نے اپنے پچاس ہسپتال ، لیباریٹری ، دواخانے ، دفاتر ، ڈاکٹرز ، کارکنان کو تاریخ انسانی کے سب سے بڑے بھیانک المئیے میں وقف کر رکھا ہے۔اسکو ناقدین بھی مانتے ہیں ۔
٭٭٭