اسلام فوبیا ، مسلم  کمیونٹی کی جدوجہد

0
141
مجیب ایس لودھی

 

مجیب ایس لودھی، نیویارک

امریکہ سمیت یورپ میں اسلام کے خلاف تعصب پر مبنی خیالات پختہ کیے جارہے ہیں جن میں سب سے زیادہ گھناﺅنا اقدام تعصب، اسلام اور دہشتگردی کا رشتہ جوڑنا ہے ، اسی قسم کا تعصب سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں بھی کامیابی سے پیدا کیا گیاکہ وہ خطرناک لوگ ہیں ، اسلام فوبیا پھیلانے میں غیر ملکیوںکا خوف بھی موثر طریقے سے استعمال کیا گیا ہے ، اس خوف کو ہوا دی گئی ہے کہ غیر ملکی مسلمان مغرب کی اعلیٰ ثقافت اور ان کی عظیم اقدار کو سخت نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس خوف کا سامنا سب سے زیادہ مسلمانوں کو ہی کرنا پڑا ہے ۔اور یہی وجہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017میں اپنا اقتدار سنبھالتے ہی مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی عائد کر دی ، اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے” کیئر “کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور نائب بانی نیہاد اعواد نے بتایا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو جتنی اپنی حقوق کے دفاع کے لیے کاوشیں اور جدوجہد کرنا پڑی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے ،ٹرمپ اور وائٹ ہاﺅس نے ملک میں اسلام فوبیا کو ہوا دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس کے خلاف مسلمانوں کو بھرپور جدوجہد کرنا پڑی ہے اور اب بھی کررہے ہیں ۔مسلمانوں کی حق تلفی صرف معاشرتی سطح تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ،خاص طور پر مذہبی سطح پر ان کو ہدف کا نشانہ بنایا گیا ، مساجد پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ، شرپسندوں نے پتھروں ، ڈنڈوں سے نمازیوں کو نشانہ بنایا اور سب معاملے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ، ان چار سالوں کے دوران مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر حق تلفی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب مسلمانوں نے سیاسی میدان میں زیادہ موثر انداز سے حصہ لینا شروع کر دیا ہے ، 300سے زائد مسلمان سیاسی میدان میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ 45 سے 50 فیصد نے وفاقی سطح پر نشستوں میں کامیابی بھی حاصل کی ہے ، اسی طرح دو مسلم خواتین کانگریس مین بھی اسی بلو لہر کا حصہ بن گئی ہیں ، راشدہ طالب اور الہان عمر اپنی نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ہیں ۔انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق دور حاضر میں مسلمان جتنے سیاسی میدان میں متحرک ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے ہیں ، اس وقت 78فیصد مسلم ووٹرز ووٹنگ کے لیے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہیں جبکہ 2016میں یہ تعداد 60 فیصد تک محدود تھی ، مسلم کمیونٹی کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں اسلام فوبیا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن مختلف دور حکومت میں مسلم کمیونٹی کی غیر ضروری مانیڑنگ ، دہشتگردی کے الزامات اور جاسوسی کی پالیسیوں نے بھی مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سوچنے پر مجبور کیا ہے ۔
اعواد نے بتایا کہ یہ بہت بڑا امریکی سماجی مسئلہ ہے کہ کمیونٹیز کو نظر انداز کرنے کے ساتھ تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کوہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا ، سیاہ فام افراد کے ساتھ امریکی قیادت اور سیکیورتی اداروں کا رویہ قابل افسوس ہے ، اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ امریکہ جیسے آزادی کے علمبردار معاشرے میں کمیونٹیز کے ساتھ نسلی امتیاز کا سلسلہ بند کیا جائے ۔ٹرمپ اور اس جیسے دیگر حواری سیاستدانوں کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ مسلم سمیت دیگر کمیونٹیز کے خلاف انتقامی کارروائیاں ملک میں معاشرتی تقسیم کو جنم دیں گی اور اس بات کا اندازہ انہیں گزشتہ دنوں ہونے والے سیاہ فام افراد کے پرتشدد مظاہروں سے باخوبی ہو جانا چاہئے ۔امریکہ میں غیر ملکی افراد اور مسلمان ممالک کے خلاف امیگریشن کی پابندیاں بھی ختم ہونی چاہئے کیونکہ یہ امریکہ کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی طرح نمایاں ہو رہی ہیں ، ایک ایسا ملک جوکہ دنیا بھر کے افراد کے لیے مواقعوں سے بھرپور ملک ہو ،جہاں لوگ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے آنا چاہتے ہوں وہاں اس قدر تنگ نظری اور تعصب پسندی نہیں ہونی چاہئے یہ امریکی اقدار کے بالکل منافی ہے ۔
انھوں نے ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے متعلق زیادہ توقعات کا اظہار نہیں کیا ہے اور فی الحال ٹرمپ سے چھٹکارے کے لیے بائیڈن کو موزوں آپشن قرار دے رہے ہیں ، انھوں نے کہا کہ بائیڈن کے جیتنے سے امیگریشن قوانین میں بہتری آئے گی جبکہ کورونا وائرس کو وہ سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کو یقینی بنائیں گے ، بائیڈن کی فتح سے موجودہ حالات میں بہتری کی توقع ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here