نواز شریف کی آمد ،الیکشن کا انعقاد مشکوک

0
74

اسلام آباد (پاکستان نیوز) سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے وطن واپسی کے اعلان کے بعد پاکستان بھر میں انتخابی و سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں ، الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کی رپورٹ جاری کر دی ہے تو دوسری طرف تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہوگئی ہیں ، نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان پر جہاں مسلم لیگ ن کی جانب سے استقبال کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں تو دوسری طرف نواز شریف کی ائیرپورٹ پر گرفتاری کی اطلاعات بھی اسی تیزی سے گردش کر رہی ہیں ، کیونکہ ان کیخلاف کرپشن مقدمات تاحال کھلے ہیں ، سیاسی تنائو کی اس کیفیت میں عوام مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے کھانے پر مجبور ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کی دہائی دے رہے ہیں، میاں نواز شریف کی سزائیں برقرار ہیں اور وہ قانون کی نظر میں آج بھی مفرور مجرم ہیں، ان کے راستے میں قانونی اور عدالتی مشکلات حائل ہیں،نیب قوانین میں ترامیم کرکے جو مقدمات داخل دفتر کیے گئے تھے وہ بھی کھل چکے ہیں، ان حالات میں بڑے میاں صاحب کو صرف جماعتی رہبر کا کردار ادا کرنا چاہئے اور مریم نواز شریف کو فری ہینڈ دینا چاہئے جیسے آصف علی زرداری بلاول بھٹو کو مستقبل کا لیڈر بننے کا پورا موقع دے رہے ہیں، پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ نوجوانوں نے کرنا ہے، بوڑھے سیاست دانوں کی گنجائش اب بہت کم رہ گئی ہے، شریف فیملی کی پرانی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ بڑا بھائی مزاحمتی اور چھوٹا بھائی مفاہمتی سیاست کرے گا،مہنگائی نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے ان حالات میں آئندہ انتخابات کے لیے معاشی بیانیہ سامنے آنا چاہئے ،میاں نواز شریف نے مزاحمتی بیانیہ جاری کر دیا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا احتساب کریں گے لیکن نواز شریف شاید یہ بھول گئے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال ان کے بھائی وزات اعظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے ہیں اور نواز شریف کی حمایت اور رہنمائی سے حکومت چلاتے رہے ہیں،اگر اس دوران ان شخصیات کا احتساب نہیں ہو سکا تو وہ اب کیسے احتساب کر سکتے ہیں ، اب عوام اتنے سادہ لوح نہیں رہے کہ وہ ان کے اس بیانئے پریقین کر لیں گے، ان کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران عوام بیدار اور باشعور ہوچکے ہیں- اب وہ کسی کے فریب میں آنے والے نہیں ہیں- اگلے انتخابات میں آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے- میاں نواز شریف اس جنرل قمر جاوید باجوہ کا احتساب کرنا چاہتے ہیں جن کو ان کی آشیر باد سے تین سال کی توسیع دی گئی- میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام گزشتہ ڈیڑھ سال کے دردناک عذاب کو بھول کر ایک بار پھر شیر پر مہر لگا کر ان کو چوتھی بار وزیر اعظم بنوا دیں- میاں صاحب کا یہ خواب شاید ہی شرمندہ تعبیر ہو پائے- میاں نواز شریف کی واپسی کے امکانات بہت کم ہیں اور جن مختلف خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان میں بڑا وزن ہے- الیکشن کمشن کے اعلان کے باوجود انتخابات کے انعقاد کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا جو کسی نہ کسی بہانے ملتوی کیے جا سکتے ہیں – سیاست دانوں نے آپس میں لڑ کر غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط بنا دیا ہے- سیاست سیاست دانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے- پاکستان ایک بار پھر امریکہ برطانیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں آ چکا ہے- کاش عمران خان مہم جوئی نہ کرتے اور سیاسی بصیرت پر مبنی دور اندیشانہ فیصلے کرتے تو میاں نواز شریف پاکستان واپسی کا اعلان بھی نہ کرتے- پاکستان کو اشتعال اور انتشار سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ انتخابات سے پہلے ایسی اصلاحات کی جائیں کہ پرانے آزمودہ چہروں کی بجائے شفاف کردار کے حامل نئے نوجوان چہرے اسمبلیوں میں آسکیں اور قومی جوش اور جذبے سے کام کرکے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کر سکیں – متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرا کر قومی مقاصدِ حاصل کیے جا سکتے ہیں – پرانے چہروں کو اگر راستہ دیا گیا تو سیاسی محاذ آرائی جاری رہے گی اور پاکستان کی آزادی اور سلامتی کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے- پاکستان کے دشمن موقع کی تلاش میں ہیں۔ ان کے عزائم کو ناکام بنانا ریاست اور عوام کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے،نواز شریف وطن لوٹتے ہی اگر جیل بھجوادئے گئے تو ان کی پہلی ترجیح ضمانت پر رہائی ہوگی جس کے حصول کے بعد ہی وہ اپنی جماعت کی انتخابی مہم کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس مہم کے دوران وہ کونسا بیانیہ عوام کے روبرو رکھیں گے وہ اپنی جگہ بھرپور اہمیت کا حامل ہے۔ فی الوقت مگر ہمارا کلیدی موضوع نہیں ہے۔گزشتہ تین دنوں سے مگر ان کی جانب سے اختیار کردہ بیانیہ ہی ٹی وی سکرینوں پر چھائی گفتگو کا موضوع ہے۔ صحافیوں اور مبصرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ حال ہی میں نواز شریف نے ریاست کے دو ستونوں سے جڑے جن چار افرا د کے نام لے کر ان کے کڑے احتساب کا مطالبہ شروع کردیا ہے اس نے مقتدرکہلاتی قوتوں کو چونکادیا ہے۔ شہباز شریف صاحب کو اس ضمن میں تحفظات سے آگاہ کردیا گیا۔مبینہ تحفظات کو نواز شریف تک پہنچانے شہبازشریف لندن سے لاہور آنے کے چند ہی گھنٹوں بعد برطانیہ لوٹ گئے۔شہباز صاحب کی ہنگامی حالات میں لندن روانگی پر غور کریں تو اگر (اور میں اگر پر زور دوں گا) کوئی شخص اب نواز شریف کی 21اکتوبر کے دن لاہور واپسی میں رکاوٹ بنے گا تو وہ عوام میں مقبول ٹی وی اینکروں کا گروہ نہیں بلکہ ان کے برادرِخورد شہباز شریف ہوں گے۔ 2019 میں میاں نواز شریف کو ان کی صحت کی خرابی کی بناپر جیل سے رہا کرکے علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی- ایک قیدی کو اس خصوصی رعایت دینے میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی رضامندی شامل تھی- سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تحریری ضمانت دی تھی کہ میاں نواز شریف علاج کرانے کے بعد چار ہفتوں کے اندر پاکستان واپس آجائینگے- پاکستان جھوٹی گواہیوں اور جھوٹے حلف ناموں کے حوالے سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے- میاں نواز شریف کا سیاسی ماضی گواہ ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حوالے سے بڑے سنگدل ہیں- وہ پاکستان کے اندر ہوں یا باہر عوام کی مشکلات کے حوالے سے وہ دلی جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر رہے ہیں- راقم محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا چشم دید گواہ ہے- وہ پاکستان اور عوام کے لیے درد دل رکھنے والی لیڈر تھیں- جلاوطنی کے ایام میں بھی وہ پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل میں دلچسپی لیتی رہیں- اخبارات کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ان کے بیانات ہر روز اخبارات میں شائع ہوتے رہے- گزشتہ تین سال کے دوران پاکستان کے عوام کو سیلاب کی قیامت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ آٹے اور چینی کے لیے ذلیل وخوار ہوتے رہے- دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں معصوم شہری جان بحق ہوگئے- سرحدوں پر پاک فوج کے نوجوان شہید ہوتے رہتے ہیں- میاں نواز شریف نے کبھی کسی کے حق میں دعا بھی نہیں کی- عوام لیڈروں کے لیے بھیڑ بکریاں ہیں جن کو بوقت ضرورت ہانکا جا سکتا ہے- میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے۔ ان کے خاندان کے کاروبار کئی گنا بڑھ گئے مگر ریلوے ، سٹیل ملز، پی آئی اے اور دیگر سرکاری کارپوریشنز آج بھی شدید خسارے میں ہیں- آج بھی 3 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جن میں اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی ہے- میاں نواز شریف عالمی معیار کا ایک بھی ہسپتال تعمیر نہ کر سکے اور نہ ہی پانی کا بڑا ڈیم تعمیر کیا- وہ عوام کے سامنے لندن فلیٹس کی منی ٹریل پیش کرنے سے بھی قاصر رہے ہیں- پنجاب مسلم لیگ نون کے ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے-

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here