کرونا وائرس یا آج کا ڈائنا سار!!!

0
272
کامل احمر

کامل احمر

کرونا وائرس نے بہت سے حقائق پر سے پردہ ہٹا دیا ہے انسان جو خدا کو بھولا ہوا تھا سوچنے پر مجبور ہے کہ اس کو ختم کرنا انسان کے بس کی بات نہیں وقت کےساتھ ساتھ یہ ختم ہوگا، کب؟ یہ خدا ہی جانتا ہے میڈیا نے دنیا بھر کے بڑے بڑے چرچوں اور کتھیڈرال کے اندر ایسٹر عبادت کے مناظر دکھائے جہاں صرف پادری ، موسیقی بجانے والا اور چرچ کے ہی چند افراد نظر آئے۔ ایسا لگا جیسے خدا نے دنیا بھر کے لوگوں کو جس میں مسلمان، کرسچین اور یہودی شامل ہیں روک لیا ہے، کہتے ہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے مطلب برُے لوگوں کےساتھ اچھے لوگ بھی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں کہ اب خدا کو ایسی عبادت کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں ساتوں آسمانوں کے راز جاننے کو کہا ہے لیکن ا نسان اس سے بھی بڑھ کر وہ کام کر رہا ہے جس سے بنی نوع انسان کو فائدے کی جگہ نقصان پہنچ رہا ہے یا پہنچایا جا رہا ہے ہم کسی بات سے متاثر یا سبق نہیں لیتے۔ قرآن پڑھتے ہیں اور بہت زیادہ پڑھتے ہیں ،پورے سال دو طبقے، مذہب کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ کی ذات پاک کی شان میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، اللہ کیلئے حمد ثناءلیکن عمل کچھ نہیں، یہ بات ہم پاکستان کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ مذہبی جنون میں مبتلا اور احساس سے خالی ہیں، مزاروں، خانقاہوں اور سجادہ نشین لوگوں کی پُرستش میں مبتلا تو پھر اللہ کی ضرورت نہیں، لگتا تو یہی ہے اور یہی لوگ میڈیا پر آکر حلق پھاڑپھاڑ کر اپنے نیک ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور پھر یہی میڈیا جوان جوان لڑکیوں کو جو ماڈلنگ کے شوق میں صحافی بن گئی ہیں ،اینکر اور ٹاک شوز کی میزبانی اونچی کرسی پر بٹھا کر دو فریقوں کو دست گریبان کراتا ہے ،مثال خلیل الرحمن قمر کی عورتوں کی ایکٹوسٹ ماروی سرمد سے غلیظ جھڑپ ہے، میزبان چاہتی تو طُول ہوتی بحث کو وہیں ختم کر دیتی لیکن پروڈیوسر کو شاید ریٹنگ کی فکر تھی۔
اور اب یہ میڈیا بھی امریکہ میں برسرپیکار ہے ایک طرف Fox نیوز ہے اور دوسری طرف سی این این اور اخباروں میں نیویارک ٹائمز دونوں کو امریکہ کے عزت مآب صدر ٹرمپ کہتے ہیں جھوٹے ہیں، خیال رہے ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی لٹریری یا شعوری بیک گراﺅنڈ نہیں، دانشوروں یا سیاستدانوں کی صحبت میں کبھی اُٹھے بیٹھے ہی نہیں۔ لوگوں نے صدارت کی کرسی پر بٹھایا اور وہی لوگ ان سے شائد فائدہ اٹھا رہے ہیں اور من مانی کر رہے ہیں ورنہ آپ سوچ سکتے ہیں کہ کرونا وائرس سے دفاع کیلئے اس ملک میں عوام کو چھوڑیں، ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس دستانے اور ماسک کے علاوہ احتیاطی منہ پر لگانے والی پلاسٹک کی ڈھال بھی نہیں یہ سیاست ہے یا مذاق ،دونوں ہی نقصان دہ ہیں، نتیجہ سامنے ہے اتوار کی شام تک امریکہ میں کرونا وائرس سے متاثر ہونےوالے افراد کی تعداد پانچ سو پچن ہزار سے زیادہ تھی اور جاں بحق ہونےوالے افراد کی تعداد بائیس ہزار سے اوپر، مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ صدر صاحب جلد سے جلد امریکہ کو کھولنا چاہتے تھے۔ پہلے انہوں نے 12 اپریل کہا تھا پھر آخر اپریل اور اب کوئی تاریخ نہیں دی ہے۔ البتہ ان کے ساتھ لگے ڈاکٹر فاﺅچی نے اقرار کیا ہے کہ اس کے ر وکنے کے لیے اقدام نہیں کئے گئے دوسری خاتون ڈاکٹر ٹی وی پر آتی ہیں اور کیا سمجھاتی ہیں کیا کہتی ہیں شاید ہی کسی کی سمجھ میں آتا ہے اور یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا ان کا نام ہے Deborah Brix جو وائٹ ہاﺅس میں کرونا وائرس کے تعلق سے بیان بازی کرتی ہیں آج فرانس کے صدر نے تقریر میں کہا 30 مئی تک لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
لاک ڈاﺅن کی بات ہو رہی ہے تو ہم پھر کہیں گے یہ کام صدر ٹرمپ کا تھا جو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ کام کر سکتے تھے یہ بات انہوں نے گورنروں کے حوالے کر دی نتیجہ سامنے ہے کہ گورنر نیویارک اور نیو جرسی نے دونوں انٹرنیشنل ایئرپورٹ مارچ کے آخری ہفتے تک کُھلے رکھے اور آنے والوں کی کسی قسم کی ٹیسٹنگ نہیں کی گئی نیویارک میں یہ وبا تیزی سے پھیلی جس میں بروکلین، فلشنگ، جمیکا اول ہیں کی وجہ سب وے اور بسوں کا کُھلا رہنا ہے ،اس میں بھی سنا ہے گورنر کیومو کا ہاتھ ہے، کہتے ہیں اور سنا ہے بادشاہ اگر نابالغ ہو یا کمزور ہو یا ناتواں ہو تو وزیر اور مشیر حکومتیں خوش اسلوبی سے چلاتے ہیں لیکن یہاں چوپٹ راج کےساتھ ساتھ مشیر اور مصائب بھی چوپٹ ہی ہیں۔
سنا جا رہا ہے کہ چین نے کرونا وائرس کی ریسرچ پر پابندی عائد کر دی ہے اور امریکہ نے بھی پرائیویٹ لیبارٹریز کو ٹیسٹ کرنے سے روک دیا ہے، ادھر نیویارک ٹائمز کے رپورٹر مارک فریٹی نے لکھا ہے کہ شروع وائرس کی وارننگ پر حکومت نے توجہ نہیں دی اس کا ثبوت خود صدر صاحب نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ مجھے کوئی میمو نہیں ملا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا ہم یہی کہہ سکتے ہیں جبکہ یہ بات تو صبر کی ہے پچھلے ساڑھے تین سالوں میں صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں اپنے ٹی وی پروگرام کی طرح رد و بدل کی ہے۔ Your Fried اور کوئی بھی سنجیدہ تجربہ کار مشیر ان کےساتھ کام کرنے سے کتراتا ہے، ان کے نیچے جو لوگ ہیں ان کا بھی یہ رویہ ہے۔ پچھلے دنوں امریکہ آنے والے جنگی بحری جہاز کے کپتان کو ایکٹنگ سیکرٹری نیوی تھامس موڈلی نے فائر کرنے کے بعد اپنی غلطی پر یا دباﺅ میں آنے کے بعد استعفیٰ دیدیا۔
کرونا وائرس اگر ختم ہو گیا تو اس کے بعد کے حالات کیا ہونگے، سوچ کر اندیشے بڑھتے ہیں، لگتا ہے فیڈرل یا صوبائی حکومت سے وابستہ بہت کم لوگ سنجیدہ ہو کر کام کر رہے ہیں آج سے 40 سال پہلے میرے یہودی باس اسرائیل مترانی نے کہا تھا، آنے والا وقت امریکن شہریوں کیلئے ا چھا نہیں کارپوریشن کی گرفت میں ہوگا اور مڈل کلاس شہری سب سے زیادہ نقصان میں ہوگا اور بے بی بوم جنریشن لالچ اور نالائقی سے بہت نقصان پہنچائے گی۔
مشہور ہدایت کار اسٹیون اسپلیرگ نے فلم جراسک پارک میں دکھایا تھا کہ انسان خطرناک جانور ڈائنا سار تو بنا سکتا ہے لیکن اس سے پھیلنے والی تباہی کو روکنا مشکل ہوگا کیا آپ نہیں سمجھتے کہ کرونا وائرس ایک چھپا ہوا موذی جانور ہے؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here