مجیب ایس لودھی، نیویارک
آج گھر میں بند ہوئے تین ہفتے گزر گئے ہیں اور چوتھے ہفتے میں داخل ہو رہے ہیں جیسے دنیا میں ہونے کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے ، معمولات زندگی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں ، روزانہ اٹھ کر ورزش کرنا ، صحت مند سرگرمیوں سے دن کا آغاز کرنا پھر دن بھر کی چکا و چوند میں کھو کر دوبارہ گھر واپس لوٹنا سب کچھ ختم ہو کر رہ گیا ہے ، دنیا تو جنگوں کے دنوں میں بھی اس قدر منجمند نہیںہوئی تھی،لوگ برستے گولوں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی سینہ تان کر سڑکوں پر آتے جاتے اور روز مرہ کے کاموں میں مشغول دکھائی دیئے یہی تو ہے خالق حقیقی کی طاقت کہ اس نے کچھ تہس نہس کیے بغیر بھی انسان کو عقل کے گھوڑے دوڑانے کیلئے مجبور کر دیا ہے جس میں وقت کی بھی کوئی قید نہیں ہے یعنی اپنے قبلے درست کرنے کے لیے آخری موقع ضرور دیا ہے۔
گزشتہ دنوں اپنے یونیورسٹی کے دوست وسعت اللہ کا ”بی بی سی“ میں لکھا ہوا مضمون پڑھا عنوان بہت خوبصورت اور تحریر بہت دل کو لگی کہ دنیا مرمت کےلئے بند ہے ، بے شک جو بھی انھوں نے لکھا خوب لکھا ہے میں ہر جمعرات کو گھر سے باہر نکلتا ہوں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ ہفتوں سے کرونا وائرس کی وجہ سے تمام لوگ ڈر کر احتیاطی طور پر گھروں میں بند ہیں تو اخبار پرنٹ کرانے کے بعد خود ہی ڈسٹریبیوشن بھی کرنا پڑتی ہے ، کوئینز کے علاقے میں پرنٹنگ پریس سے اخبار اٹھا کر اپنے اخبار کے لیے مختص باکسز میں اخبارتقسیم کرتے ہوئے بروکلین کی جانب بڑھتا ہوں تو عجیب احساس ہوتا ہے کہ یہ وہی BQ ہائی وے ہے جہاں صرف جیکسن ہائٹس سے بروکلین تک پہنچنے کے لیے بھری ٹریفک میں 2-2 گھنٹے لگ جایا کرتے تھے اور اب میں صرف 15منٹ میں بروکلین پہنچ جاتا ہوں ، بروکلین پہنچ کر یقین نہیں آتا کہ یہی” لٹل پاکستان“ ہے جہاں روڈ پر اتنی ٹریفک ہوتی تھی کہ روڈ کراس کرنے کے لیے لال بتی کا انتظار کرنا پڑتا تھا لیکن یہ امر بھی قابل ذکر اور قابل خوشی ہے کہ جب بھی میں باکسز کو اخبار رکھنے کے لیے کھولتا ہوں تو اس میں پرانے ایڈیشن کا کوئی ایک بھی اخبار بچا نہیں ہوتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نیوز واحد اردو پاکستانی اخبار ہے جوکہ کورونا کے لاک ڈاﺅن کے دوران بھی اپنی اشاعت کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔
فوسٹر ایونیو پر صرف عزیز بٹ کو بٹھا دیا گیا جو بہت محبت اور خدمت کرنے والا انسان ہے ، مکی مسجد کو بند پایا اور کچھ نیک لوگوں کو غریبوں میں راشن تقسیم کرنے میں مصروف پایا لیکن ہر جانب اُداسی کو دیکھا ، کوئینز ہو یا بروکلین ، لانگ آئی لینڈ ہو یا منہاٹن ، برانکس ہو یا نیوجرسی ہر جانب انتہائی خاموشی کا غلبہ تھا ، چند ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ ہر شخص افرا تفری کا شکار تھا ، بچوں ، بڑوں کسی کے پاس ایک دوسرے سے بات کرنے کا بھی وقت نہ تھا ، ہر شخص نئی سے نئی کار ، نئے گھر ، نئے کاروبار اور ڈالر کمانے کی دوڑ میں تھا ، آج دنیا تھم چکی ہے، وائرس کا ایسا خوف ہے کہ امیر ہو یا غریب سب گھروں میں سہمے بیٹھے ہیں لیکن ہسپتالوں میں مریضوں کی لائن لگی ہوئی ہے ، ہر روز کوئی نہ کوئی جاننے والی کی خبر آتی ہے کہ آج فلاں شخص چلا گیا ، فینرل ہوم والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے ، ڈیڈ باڈی کے منہ بولے ڈالر مانگ رہے ہیں ، اللہ کے حکم پر قہر نازل ہونے کے باوجود ان کے دلوں میں رحم نہیں ہے سوائے چند کے تمام فینرل ہوم والے مردوں کو پلاسٹک بیگ میں ڈال کر دفنا رہے ہیں ، عزیز ، رشتہ داروں کی اجازت کے بغیر ، نماز جنازہ پڑھائے بغیر دفنا رہے ہیں ، اس بدترین دور میں بھی ڈالر کی کمائی ان پر غالب ہے ، سچ کہا کسی نے جب ان کے گھر سے جنازے اٹھیں گے تب ان کو احساس ہوگا کہ دوسرے گھروں کے جنازوں کی جس طرح ان فینرل ہوم والوں نے بے حرمتی کی ہے ان کے ساتھ بھی ہوگی ، بے شک کرونا وائرس اللہ تعالیٰ کی جانب سے قہر ان لوگوں کیلئے بن کر آیا ہے جنہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے ، اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ سب کو گھروں میں قید اس لیے کیا ہے کہ ”اے میرے لوگوں سوچو تم کس طرف دوڑے چلے جا رہے تھے “ دنیا بھر کے ممالک اسلحہ کی دوڑ ، انٹرنیٹ کی دوڑ ، اعلیٰ سے اعلیٰ محلات کی دوڑ ، ایک سے ایک نئی کاروں کی دوڑ ، پیسوں کی اہمیت اتنی کہ پڑوسی یا رشتہ داروں کا احساس ہی نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طاقت اور حکمت دیکھیں کہ ہر ایک کو جام کر دیا ہے ، آسمان پر جہا زنہیں ، زمین پر کار نہیں ، آج ہوا صاف ہے ، آج دنیا میں ہر دوڑ ختم ہو چکی ہے ، آج ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیا ہے جس طرح جج مجرم کو کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ میں اپنا فیصلہ سنا دوں میں تمھیں آخری موقع دیتا ہوں کہ سوچ لو اور اپنے جرم کو قبول کر لو ورنہ میرا فیصلہ آنے والا ہے ، آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں آخری موقع گھروں میں بند کر کے دیا ہے کہ سوچو کدھر جا رہے تھے ؟آج اپنی فیملیز کے ساتھ بیٹھ کر سو چو کہ ہم امریکہ کس لیے آئے تھے ؟ صرف ڈالر کمانے کیلئے ، کہاں گیا تمھارا دین ؟ کہاں گئی حضور ﷺ کی تعلیمات ؟آج ہمیں اللہ نے بہت قیمتی موقع فراہم کیا ہے کہ ہم سوچیں کہ ہماری بنیاد کیا ہے ؟ہم آخر کس دین سے تعلق رکھتے ہیں ؟کفار کی کامیابیاں ، رہن سہن ، ملبوسات ہمیں کیوں اچھے لگنے لگ گئے ہیں ؟ہم زندگی کے ہر شعبے میں ان کی تقلید کیوں کرنے لگے ہیں ؟ہم ابدی زندگی کو بھلا کر عارضی اور فنا ہوجانے والی دنیا کے پیچھے کیوں پاگل کتے کی طرح بھاگتے چلے جا رہے ہیں؟ معافی مانگنے کا آخری موقع ہے ورنہ قیامت سے پہلے قیامت کا منظر آپ کے سامنے ہے ، آیئے ہم سب مل کر اپنی اصلاح کریں ، اپنی سمتوں کا دوبارہ سے تعین کریں ، اپنے قبلوں کو درست کریں ، اب واپس آجائیں ، اس سے نہ صرف کل جہاں کی مرمت ہو جائے گی بلکہ تعمیر نوں ہو جائے گی ، آئیے نماز کی جانب ، آئیے دین کی جانب ، وہی واحد بچنے کا راستہ ہے ورنہ ۔۔۔۔؟
٭٭٭