یاد دلاتے چلیں آج20نومبر2023ہے اور غزہ میں اسرائیل کی اندھا دھند بمباری جاری ہے امریکی اوزار اور ہتھیار بنانے والی کمپنیوں میں کام زوروں پر چل رہا ہے۔ نتن یاہو حماس کی تلاش ہسپتالوں پر بمباری کرکے نومولود بچوں کا قتل عام کر رہا ہے انکے حیوان نما فوجی ہسپتالوں میں گھس کر حماس کی بنائی ہوئی سرنگوں کو دریافت کر رہا ہے اور الجزیزہ پر یہ تباہی اور ہولوکاسٹ اسرائیل اسٹائل دیکھ دیکھ کر آنکھیں خشک ہیں۔ اقوام متحدہ کے سائوتھ امریکہ سافت کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس دبے لہجے میں یہ سب کچھ بتا رہے ہیں پریس کو لیکن وہ اسرائیل کو جنگی مجرم نہیں کہہ پا رہے کہ امریکہ سن رہا ہے دیکھ رہا ہے اور انہیں اتنی آرام کی ملازمت کہاں ملیگی وہ زمانہ گیا جب یہ عہد سیکرٹری کرٹ والڈھائم یوتھانٹ اور داگ ہمیرشولڈ جیسے جرات انگیز لوگوں کا تھا کہ داگ ہمیر شولڈ ہوائی جہاز کے حادثے میں جان گنوا بیٹھے یہ1941کی بات ہے وہ سویڈن کے تھے۔ موجودہ سیکرٹری جنرل گوتریس ایک چھوٹے سے ملک پرتگال کے ہیں۔ بہت فرق ہے دونوں ملکوں کے دونوں سیکرٹریوں پر۔پہلے امریکہ اتنا حاوی نہ تھا دنیا پر اور آج اس کے اشارے پر چھوٹے ملک خندہ پیشانی سے آرمی انداز سے کہتے ہیں۔YES SIRآج امریکہ چھوٹے ملکوں کو حکم دیتا ہے اصل یا مشورہ نہیں کرتا۔ آج امریکہ کسی بھی ملک یا کسی بھی شخص کو سزا دے سکتا ہے جو اس کی بات نہ مانے بغیر گفتگو کے جیسا کہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔ کہ ایک فرمان حکومت کو راتوں رات گرادور جیسے امریکی زبان میں کہتے ہیںREGIME CHANGEذرا سے شک پر کہ یہ کہیں راستے کا پتھر نہ بنے۔ بھٹو مثال ہے اور زندہ بھی ہے۔ چی گوارا بھی پورے سائوتھ امریکہ میں زندہ ہے۔
اب عمران خان کے لئے کوشش جاری ہے۔ یہاں کے سیاست دان کان، ہاتھ کو گردن کے پیچھے لے جا کر پکڑتے ہیں اس طرح نہیں جیسے ہمارے استاد لڑکپن ہیں سزا کے طور پر کہتے تھے ”کان پکڑو” اور بڑی غلطی ہو تو ”مرغا بن جائو” امریکہ بادشاہ کہتا ہے کان پکڑو تو ہمارے جنرلز مرغا خود ہی بن جاتے ہیں۔ امریکہ اتنا ظالم بھی نہیں جو ہمارے جنرلوں اور سیاست دانوں نے بنایا ہوا ہے۔ دونوں، جنرلز اور سیاست دان کھلواڑ کررہے ہیں اور انجام جانے بغیر آگ کے درباں میں کود رہے ہیں لیکن خیال رہے۔لقول قابل اجمیری مرحوم کے !
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایکدم نہیں ہوتا
یہاں بیٹھ کر7ہزار میل دور کے ملک میں یہ کچھ کرنا جس کا فائدہ امریکی عوام کو کبھی نہیں ہوا۔ امریکی تنگ ہیں اپنے سیاست دانوں اور ان کے فیصلے سے حالیہ مثال یوکرین اور اسرائیل پر بے حساب امریکی ٹیکس ڈالر پھینکنا ہے۔ پہلے یوکرائن تھا۔ حال ہی میں پاکستان کے جنرلوں نے لاکھوں ڈالرز کے ہتھیار روانہ کئے ہیں وہ ڈالرز کہاں ہیں عاصم منصر نے ایک جواری کی طرح ہارنے میں مطلب خزانے کی جگہ اپنے خزانے میں بھرنے ہیں۔ حساب لینے والا کون ہے؟۔
عمران خان کو بند کرکے وہ سمجھتے ہیں اس کے لئے عوام کی مقبولیت ختم کردینگے وہ اس خیال میں نت نئے کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ لیکن ان حرکتوں سے عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ جنرل عاصم منیر سمجھتا ہے کہ وہ دو بدنام زمانہ لیٹروں کی پارٹی کو الیکشن لڑوا کر جمہوریت کو زندہ رکھ سکے گا جس سے امریکہ خوش ہوگا اور ڈالرز ملینگے وہ امریکہ کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک رہے ہیں۔ ابھی ابھی ہم خاور مونیکا کی زبانی اسکی بے حیائی اور بے غیرتی کی داستان سن کر بیٹھے ہیں۔ اس دور کی ہر بات نرالی ہے یہ تو ہوتا آیا ہے کچھ بااثر لوگوں نے اپنی بیویوں کو سیڑھی بنا کر فائدہ اٹھایا ہے پاکستان میں 1970کی ایک مثال ہے لاہور کے سابقہ ڈپٹی کمشنر مصطفٰے زیدی کی جیسے ایک شادی شدہ عورت سے جنونی عشق ہوگیا اور پھر خبر آئی کہ مصطفٰے زیدی نے خودکش کرلی۔ اور اسکی محبوبہ شہناز بیہوشی کے عالم میں پڑی تھی لگا جیسے روسیو جیولیٹ کاENDہے کہ رومیو سمجھتا ہے اسکی محبوبہ جیولیٹ مرچکی ہے جب کہ چرچ کے پادری نے اسے وقتی طور پر لوگوں کو بتانے کے لئے نشہ آور دوا دی تھی کہ لوگ سمجھیں وہ مر گئی۔ جیولیٹ کو اس کا پتہ نہ تھا وہ سمجھتا ہے مر گئی اور محبت میں شیشی میں بھرے زہر کو پی لیتا ہے جب جیولیٹ کو ہوش آیا ہے تو یہ دیکھ کر شیشی میں بچا زہر پی کر مر جاتی ہے محبت کی جیت ہوتی ہے لیکن شہناز نے ایسا نہیں کیا سنا ہے وہ کرنل کی بیوی تھی اور کرنل ہی نے اسے اپنے فائدے کے لئے اجازت دی تھی کہ وہ عشق لڑائے۔ یہ مشہور اسکینڈل بنا تھا۔ مصطفٰے زیدی کے انتقال کے بعد قانونی کارروائی شروع ہوئی شہناز پر زہر دینے کا الزام تھا اور اخبارات میں یہ داستان عوام کی دلچسپی کا باعث بنی جنگ اخبار نے پوری تفصیل کورٹ کی شائع کی تھی کہتے ہیں شہناز گل بے حد خوبصورت تھی ہوگی کبھی کسی بدصورت عورت سے کسی نے پیار کیا ہے۔ مصطفٰے زیدی اپنے وقت کا بڑا شاعر بھی تھا اس کا یہ شعر سب کی زبان پر تھا۔
ان ہی پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کہیں کہلشاں نہیں ہے
ایک بیورو کریٹ ایسا شعر کہے جس کی محبوبہ کرنل کی بیوی ہو۔ عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ بات1970کی ہے اور آج53سال بعد کچھ اور ہی انداز ہے زمانے کا لیکن شوہر وہ ہی ہے جو بیوی کو پل بنا کر کھلی چھٹی دیتا ہے جو خاور مانیکا ایک مالدار خاندان کا شخص ہے جس کا باپ بینظیر بھٹو کی حکومت میں فیڈرل منسٹر تھا۔2010میں وہ ریجنل ٹیکس آفس میں کمشنر تھا2011میں ٹریننگ اور ریسرچ کسٹمز کے فیڈرل ریویو بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل تھا۔ اور بدعنوانی کے لئے مشہور ہو چکا تھا لہذا ایک شہر سے دوسرے شہر تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ کئی عہدوں سے رشوت لینے کے الزام میں ہٹا گیا تھا اور پھر2015میں اسے ترقی دینے سے روک دیا گیا۔
اور آج وہ عمران خان کو آرمی کے کہنے پر ایک لکھے ہوئے مسودے کے تحت میڈیا پر آئے اور عمران خان اور اپنی سابقہ بیوی کے عشق کی داستان ترتیب سے سنا گئے۔ کہ14نومبر2017کو بیوی نیکی(بشرا مونیکا) کو طلاق دے دی عمران خان سے یکم جنوری کو نکاح ہوگیا شادی سے پہلے چیئرمین گھنٹوں نیکی سے بات کرتا تھا فون پر یا گھر میں زلفی بخاری کے ساتھ آکر ایک بار نوکر کے ہاتھوں چیئرمین کو گھر سے نکلوایا پنکی کو ڈانٹا کہ مجھے تھا تو دیا کرو کہ اسے آنا ہے(مطلب، میری عدم موجودگی میں تم کھیل کھیل سکتی ہو) پنجاب میں سارے تبادلے فرح گجر اور جمیل گجر کرواتے تھے بشرہ بی بی نے مجھ سے ضد کی والدہ اور بھائی کے ساتھ رہنا ہے(مطلب جی بھر گیا) پنکی میں اچھی خاصی تبدیلی آگئی تھی(ظاہر ہے مشن کامیاب تھا) فرمایا کہ چھوٹی بیٹی کی4سال سے اپنی ماں سے بات نہیں ہوئی۔پنکی5بچوں اور گھر کو چھوڑ کر چلی گئی مجھے اور بچوں کو نکاح کی خبرTVسے ہوئی۔ کبھی پیر اور مرید بھی آپس میں شادی کرتے ہیں فرح گوگی اس میں شامل ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ خاور اب کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے مونیکا کو طلاق دے کر بے غیرت ایسے بھی ہیں!!۔
٭٭٭٭