منہاٹن میں قتل عام!!!

0
622
حیدر علی
حیدر علی

دلیر ماں کی بطن سے پیدا ہونے والا دیدارلاسلام خود بھی شجاعت اور جرأت کا پیکر تھا، اِسی لئے جب اُس کے ٹریفک پولیس سے پولیس آفیسر پروموشن کا وقت آیا تو اُس نے بلا جھجک اُسے قبول کرلیا، حالانکہ اُس کے دوست احباب ، عزیز و اقارب اُس کی حوصلہ فرسائی کر رہے تھے کہ وہ آفیسر بننے سے گریز کرے ، کیونکہ اُس عہدے میں خطرات کے امکانات وسیع ہیں، دیدارالا سلام نے اُنہیں جواب دیا کہ وہ اُن سبھی کیلئے صداقت، شجاعت اور عدالت کی ایک وراثت چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جس پر آنے والی نسل اُس پر فخر کر سکیں، اُس کا عزم ، اُس کا عہد بالآخر بروئے کار آیا، گزشتہ پیر کے دِن یعنی28 جولائی کو اُس نے وہ سب کچھ کر دکھایا جس کی کمیونٹی اُس سے توقع کرتی تھی، وہ جام شہادت نوش کرلیا، وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے منہاٹن کی ایک بلڈنگ پارک ایونیو پر واقع کی نگرانی کیلئے مامور تھا، چند سیکنڈ میں ہی اِس کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح سارے نیویارک شہر میں پھیل گئی، اُس کی بہادری کا چرچا زبان زد عام ہوگیا، نیویارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمزنے ہسپتال کے لابی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیدارا لاسلام شہریوں کی زندگی کا محافظ تھا ، وہ نیویارکرز کی حفاظت کرنے کا ذمہ دار اور اُن کے اقدار کا مجسم تھا، وہ حقیقی معنوں میں ایک سچا شخص بلیو یونیفارم میں یا سادہ لبادے میں نیویارکر تھا۔واضح رہے کہ دیدارالاسلام اور تین دوسرے افراد کو گذشتہ ماہ کی 28 تاریخ کوذہنی طور پر علیل شین ڈی تمورانے AR-15 رائفل کی گولیوں سے بھون ڈالا تھا، دراصل مذکورہ قاتل کا موقف تھا کہ فٹ بال کے کھیل کے دوران دماغی طور پر زخمی ہونے والے کھلاڑیوں کے مناسب علاج کیلئے سہولت ستیاب نہیں ہے،درحقیقت شین ڈی کا ٹارگٹ این ایف ایل کا ہیڈ کوارٹر تھاجہاں غلطی سے وہ پہنچ نہ سکا ،دیدار الاسلام ایک پولیس آفیسر ہونے کے باوجود بھی مذہبی جذبے سے سرشار تھا، برانکس کی کوئی بھی مسجد ہو جہاں کے نمازی اُس کے نام سے واقف نہ ہوں، اُس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسلام کے ایک کزن نے خود اپنے گھر کے قریب ایک مسجد تعمیر کر لی تھی جس کے چلانے کی ذمہ اری اسلام کی تھی، وہ پانچوں وقت کا نمازی تھا،مسجد کا نام اُس نے برانکس اسلامک کلچرل سینٹر مسجد بلال رکھا تھا، مذکورہ مسجد نہ صرف مذہبی فرائض کی ادائیگی کیلئے مخصوص تھی بلکہ بنگلہ دیشی کمیونٹی کے نوجوانوں کو جاب کی فراہمی کیلئے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا کرتی تھی چونکہ دیدارالاسلام خود ٹریفک پولیس کے عہدے پر فائز رہ چکا تھا اِس لئے اُس میں شمولیت کیلئے کس طرح کی قابلیت کی ضرورت پڑتی ہے وہ نماز کیلئے آنے والے نوجوانوں کو اُس سے آگاہ کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ اُس کی شہادت کی خبر سنتے ہی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اُس کے گھر تعزیت کیلئے پہنچنا شروع ہوگئے ، ایک مسجد کے امام اسلام کے گھر کے افراد کو تسلی دینے کیلئے تشریف لائے،اوبر کے ڈرائیورز اپنے گھر والوں کے ساتھ وہاں پہنچنے کو ترجیح دی، بچے گھر کے باہر دنیا و مافیاسے دور اُچھلنا کودنا شروع کر دیا،لوگوں کا تانتا منگل کی شب تک جاری رہا، آنے والے لوگ کھانے پینے کا سامان المونیم کے ٹرے میں لانا نہیں بھولے، گھر کے باہر پولیس کی نگرانی جاری رہی،
جیسا کہ سبھوں کو معلوم ہے کہ نوجوانوں کیلئے نیویارک میں ایک مکان کا خریدنا کتنا دشوار ہے، مکان خریدنے سے قبل ہی اُسے یہ طے کرلینا پڑتا ہے کہ مکان کے کس حصے میں وہ خود رہیگا اور کس حصے میں مارٹ گیج دینے کیلئے اُسے کرائے پر دینا پڑیگا، دیدارالاسلام نے بھی اپنے گھر کے بیسمنٹ کو اپنے جاننے والوں کو کرائے پر دے دیا تھا لیکن یہ اُس کی خوش نصیبی تھی کہ اُس کے تعلقات کرائے داروں کے ساتھ والہانہ تھے۔اُس کے ایک کرائے دار شعیب چوہدری نے اِس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایک فیملی پرست انسان تھا،اُنہوں نے مزید کہا کہ اُنہیں یقین نہیں آرہا ہے کہ بارہ گھنٹے قبل اُنہوں نے اسلام کو دیکھا تھا اور اب وہ دائمی طور پر اُن سے جدا ہوگیا ہے۔ وہ ایک نہایت ہی عمدہ شخص تھا،ایک دوسری کرائے دار شبانہ پرو تھو اختر جو دیدارالاسلام کو کئی برسوں سے جانتی تھی کہا کہ اسلام ایک نہایت مصروف انسان تھا۔ اُنہوں نے کبھی بھی اُن کے اپارٹمنٹ کی ضروریات کو نظر انداز نہیں کیا، منظور الکریم ایک فیملی فرینڈ نے کہا کہ اسلام بنگلہ دیشی کمیونٹی کا ایک رہنما تھا۔شہید دیدارالاسلا کے علاوہ اور چار افراد اُسی واردات میں لقمہ اجل بن گئے، اُن میں قاتل اور مصدقہ دماغی مریض شین بھی شامل ہے۔انوسٹمنٹ فرم بلیک اسٹون کی 43 سالہ ایگز یکٹو ویسلے لے پیٹنر ایک قیمتی جان تھی، وہ متعدد بورڈ کی رکن جس میں میٹرو پولیٹن میوزیم اور یوجے اے فیڈریشن آف نیو یارک شامل ہے،27 سالہ جولیا ہے مین ایک دوسری خاتون ہے جو اُسی خونی ڈرامہ میں موت کی نیند سوگئی، اُسکا تعلق روڈین مینجمنٹ سے تھا، اُس کے علاوہ سیکیورٹی آفیسر ایلنڈ ایٹینی بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہلاک ہوگیا،منہاٹن کے برائنٹ پارک میں مسلمان، کرسچن ، ہندو، سکھ اور بدھسٹ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ہلاک ہونے والوں کیلئے دعا مغفرت کی ، دیدارالاسلام کے جنازے کو جس شان و شوکت سے اٹھایا گیا اُس کی مثال شاز و نادر ہی ملتی ہے۔

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here