کرونا 19 کے بارے میںقرآن کےساتھ گفتگو!!!

0
390
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

پوچھا:اس منحوس کرونا 19 وائرس سے دنیا کب نجات حاصل کر سکے گی؟
بس کچھ دنوں میں
پوچھا : ڈاکٹر اور حکما صاحبان صرف نصیحتیں اور نسخے دیتے رہتے ہیں.
جاننے والے سے بہتر جانکاری کوئی نہیں دے سکتے ہیں
پوچھا : صحت عامہ محکموں کی نصیحتوں اور احکامات کا کیا کروں؟
انکی سنو اور اطاعت کرو ۔
پوچھا: اس منحوس کرونا سے بچنے کے لئے کیا کروں؟
اپنے گھروں میں محصور ہو کر آرام سے رہو
(ایسے) گھر جو حفاظت کے اعتبار سے قابل اطمینان ہوں
پوچھا: یعنی اس بیماری سے بچنے کے لئے عمومی صحت و صفائی لازمی ہے لیکن اپنی سلامتی کے لئے کیا کروں؟
اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھو لو
پوچھا : ہمارے کپڑے بھی تو بیماری پھیلا سکتے ہیں ان کا کیا کروں؟
اور اپنے کپڑوں کو صاف و پاک کرو.
پوچھا : کیا غیر ضروری کام کے لئے گھر سے باہر نکل سکتا ہوں؟
اپنے آپ کو خود ہی ہلاکت میں نہیں ڈالو
پوچھا: اگر کسی میں تپ و لرزہ یا سانس لینے میں مشکل دیکھوں اس کو کیا سمجھوں؟
وہ بیمار ہے
پوچھا: ایسے میں کیا کریں؟
ان کے قریب مت ہونا
پوچھا : لیکن یہ وائرس بیمار سے ہم میں کیسے منتقل ہو جاتا ہے؟
ان کے منہ سے نکلتا ہے
پوچھا : کیا ان دنوں رشتہ داروں اور دوستوں کو ملنے کے لئے جا سکتے ہیں؟
نہیں اپنے گھر کے بغیر کہنی نہیں جاو¿.
پوچھا : کیا قرنطینہ کے دنوں میں گھر والوں کے ساتھ خرید کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل سکتے ہیں؟
ایسے میں کوئی ایک پیسے لے کے بازار چلا جائے اور (جس دکان پر) صحیح و سالم غذا ہو خرید کرکے لے آئے اسے کھائیں
پوچھا: کچھ لوگ صحت و صفائی سے متعلق نصیحتوں اور احکامات کو رعایت کیوں نہیں کرتے ہیں؟
کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھتے ہیں.
پوچھا : ہم کیا کریں؟
انہیں مت چھو لیں.
ان کے ساتھ مت بیٹھیں.
پوچھا: کیا قرنطینہ میں رہنے اور صحت و صفائی کا خیال رکھنے سے ہماری ان دنوں کی مشکل آسان ہوجائے گی؟
اس میں لوگوں کی شفا ہے.
پوچھا : اس طرح گھروں میں اور قرنطینہ میں محصور رہنے سے ہمارے لئے اقتصادی مشکلات پیدا ہونگے غربت اور تنگدستی پیش آئے گی .(جاری ہے)
اور اگر غربت اور تنگدستی سے ڈر رہے ہو اللہ اپنے فضل و کرم سے آپ کو بے نیاز کر دے گا.
پوچھا : کچھ ایسے حالات میں جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں جس سے لوگ پریشان اور ہمت ہار جاتے ہیں، یہ کون لوگ ہیں؟
منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے شہروں میں پریشان کن جھوٹے افواہیں پھیلاتے ہیں.
پوچھا : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وائرس عالمی استکباری طاقتوں نے اپنے حریفوں کو راستے سے ہٹانے کے لئے بنایا ہے.
اور اگر صبر و تقوی سے کام لیں ان کی سازشیں آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں، اللہ اس سب پر احاطہ رکھتا ہے جو کچھ وہ انجام دے رہے ہیں.
پوچھا : آخر کار ہمیں اس تکلیف سے کون نجات دے گا؟
اللہ آپ کو اس تکلیف اور ہر پریشانی سے نکال دے گا.
پوچھا : گھروں اور قرنطینہ میں محصور ہو کر رہنے والے افراد کے ساتھ کیسا سلوک کریں؟
ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آئیں.
لطف و کرم کا مظاہرہ کریں.
پوچھا : ہمیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہئے؟
ان کے ساتھ شائستگی کے ساتھ بات کریں.
پوچھا : اگر گھر میں بیٹھے بیٹھے آپس میں تو تو میں میں ہوا تو ایسے میں کیا کریں؟
چاہئے کہ معاف اور درگذر کریں؛ کیا آپ نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟
پوچھا : گھر میں بیٹھے بیٹھے وقت کیسے اچھی طرح گزاروں؟
بہت زیادہ اپنے پروردگار کو یاد کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح بجا لاو.
اور رات کو نماز شب اور عبادت و بندگی کرنے کے لئے بیدار رہنا.
پوچھا؛ گھروالوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کیا کریں؟
جو کچھ قرآن میں تمہارے لئے پڑھنا آسان ہے وہ پڑھیں.
پاکیزہ اور حلال پکوان کھائیں اور صالح کاموں کو انجام دیں.
پوچھا؛ لگتا ہے کہ تمہاری سفارشات پر عمل کرنے سے گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح سے دن گزریں گے؟
تم پر اور تمہارے گھر والوں پر اللہ کی رحمت و برکات ہوں یقیناً وہ حمید و مجید ہے.
پوچھا : ان دنوں مدافعان سلامت اور صحت عامہ محکموں پر انسانی جانیں بچانے کے لئے بڑی زمہ داریاں عائد ہیں.
اور جس کسی نے بھی انسان کو بچایا گویا اس نے سبھی انسانوں کو بچایا ہے.
پوچھا :ان کی جان توڑ کوشش کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
ان کی صالح عمل ان کے نامہ اعمال میں ثبت کئے جائیں گے، کیونکہ اللہ نیکی کرنے والوں کے انعام کو ضائع نہیں ہونے دیتا ہے .
پوچھا : کچھ ڈاکٹروں اور پرستاروں نے کرونا سے بچانے کے لئے اپنی جان گنوا دی اور اللہ کو پیارے ہو گئے.
وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین و شہداءہیں اور ان کے لئے ان کا انعام ہے.
پوچھا : منحوس کرونا شیطان پر غالب آنے کے لئے صحت عامہ سے متعلق نکات رعایت کرنے اور گھروں میں محصور ہو کر رہنے کے علاوہ اور کوئی سفارش ہے؟
اور بیم و امید کے ساتھ دعا کریں، یقیناً اللہ کی رحمت نیک افراد کے پاس ہے.
پوچھا : کیا اللہ کی طرف سے ہماری مشکلیں آسان ہونے کے لئے ہماری دعائیں کارگر ہیں؟
اگر تمہاری دعائیں نہ ہوں میرا پروردگار بھی تمہاری توجہ نہیں کرے گا.
پوچھا :اس وبا کے چلتے اضطراب اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے.
وہی( اللہ) تو ہے جسے جب مضطرب پکارے وہ اسکی دعا سنتا اور اسکی پریشانی کو دور کرتا ہے.
پوچھا : کیا حضرت انسان سے کوئی گلہ یا شکایت ہے؟
اور جب انسان کو کوئی تکلیف و نقصان پہنچے تو ہم سے ہر حال میں مدد طلب کرتے اور جب تکلیف و نقصان کا علاج کریں تو ایسے ناشکری اور گناہ کا رخ کرتے ہیں گویا تکلیف و نقصان کا علاج کرنے کے لئے ہم سے مدد طلب نہیں کی ہو!
پوچھا : کیا ہمیں ایسی دعا سکھائیں گے جس سے اللہ کی بارگاہ میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے لئے معافی مانگیں اور اس مشکل سے نکلنے کے لئے مدد کی درخواست کریں؟
اے پالنے والے! اگر ہم بھول گئے یا غلطی کر گئے، ہمیں سزا نہیں دینا!
اے پالنے والے! ہم پر ذمہ داریوں کا سنگین بوجھ نہیں ڈالنا جس طرح (گناہ و طغیانی کرنے والوں پر) ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا!
اے پالنے والے! جسے تحمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں اسے ہمارے لئے مقرر نہیں کرنا! اور ہمارے گناہوں کے آثار کو دھو ڈالنا! ہمیں معاف کرنا اور اپنی رحمت میں جگہ دے! تو ہمارا مولا و سرپرست ہو،
پوچھا:اللہ کی بارگاہ میں دعاو¿ں اور منتوں کے علاو? اس منحوس وائرس سے بچنے کیلئے کس کا سہارا لیں؟
صبر اور نماز سے کام لیں.
پوچھا: اس بحران سے دلوں کا سکون چھین گیا ہے بے چینی اور اضطراب سے بچنے کے لئے کیا کریں؟
جنہوں نے ایمان لایا ہے اور اللہ کی یاد سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے، جان لیں! صرف اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے.
پوچھا: کیا پھر اس وائرس کے پھیلنے سے پیدا شدہ صورتحال کے اضطرابی کیفیت سے بچنے اور سکون و اطمنان حاصل کرنے کے لئے بھی اللہ سے درخواست کرنی ہے؟
وہی تو ہے جو مو¿منین کے دلوں پر سکون اور اطمینان نازل کرتا ہے.
پوچھا :کیا کرونا وائرس سے پیدا شدہ مشکلات اور سختیوں کا خاتمہ ہو گا؟
اللہ جلدی ہی سختیوں اور مشکلات کے بعد آسائش و آسانیاں عطا کرے گا.
پوچھا :کیا پھر اس بیماری کے بعد مو¿منین کیلئے خوشی اور مسرتیں لوٹ آئیں گے؟
اللہ کے فضل اور رحمت سے خوش و خرم ہونگے جو کہ ہر کمائی سے زیادہ فائدہ مند ہے.
نوٹ :- ہمارے استاد محترم ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی نے آج یوم بعثت فجر کے بعد ابو فاطمہ عبد الحسین کی ایک پوسٹ شئیر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ تفو¿ل قرآنی کی ایک قسم ہے۔ مزید استاد نے وضاحت کی جیسے جناب فضہ ۲۰ سال قرآن س بات کرتیں۔ یا ابن عباس معاویہ کے سامنے قرآن کی ایتوں سے استدلال کرتے تھے یا ابوزر دشمنان علی پر لعنت کیلئے قرآنی آیاتسے سپورٹ لیتے یا جس طرح طباطبائی – وزیری اور مجتبء رضوی قرآن سے بات کرتے تھے۔ اسے تفسیر نہ سمجھ لیں۔ یہ تفائل اور تطبیق ہے
ہم آپکے استفادہ کیلئے ارسال کر رہے ہیں
انداز بیاں گر چہ کچھ شوخ نہیں ہے
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات
طلاب حوزہ علمیہ المہدی امریکا
732-710-3434
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here